Montag, 19. September 2011

جعلساز اور سارق عمران بھنڈر کے حوالے سے چند وضاحتیں

جعلساز اور سارق عمران بھنڈر کے حوالے سے
چند وضاحتیں

حیدر قریشی(جرمنی)

سات ستمبر ۲۰۱۱ء کے روزنامہ’’انصاف‘‘کے ادبی ایڈیشن میں محمد اعظم وڑائچ صاحب کا کالم میں نے توجہ سے پڑھا۔وہ عام طور پر ہلکا پھلکا اور طنزیہ و مزاحیہ قسم کا کالم لکھا کرتے ہیں۔جبکہ اس کالم کا موضوع نہایت حساس اور تحقیقی نوعیت کا ہونے کے باعث سنجیدگی اور بہت زیادہ تحقیقی رویے کا طالب تھا۔وڑائچ صاحب نے میرا موقف واقعتاََ پوری طرح پڑھ کر یہ سب کچھ لکھا ہوتا تومجھے ان کے ان تاثرات سے بھی کوئی افسوس نہ ہوتا۔یہ کالم آدھے ادھورے مطالعہ کا غماز ہے۔جدید ادب جرمنی میں کسی بھی گروپ کی ترجمانی نہیں کی جاتی۔نئے پرانے لکھنے والوں میں سے جو بھی اپنی تخلیقات بھیجتے ہیں ،اگر وہ رسالے کے مزاج کے قریب ہوں تو انہیں احترام کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔اس لیے کسی کو چھاپنا اور کسی کو نہ چھاپنا والی بات مناسب نہیں ہے اور محض سنی سنائی کو آگے بڑھانے جیسی ہے۔
بھنڈر صاحب کے بدتہذیبی پر مبنی رویے کی وجہ سے ان سے میرا تعلق بہت پہلے کا ٹوٹ چکا تھا۔میں ایک ہی وقت میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا تھا،اس لیے ان کے معاملہ میں احتیاط سے کام لے کر خاموشی اختیار کرنا لازم تھا۔جہاں تک ادبی طور پر سوچ کے واضح فرق کا تعلق ہے اس کا اظہار میری طرف سے اور میرے دوستوں کی طرف سے’’اختلافی نوٹ‘‘ کی صورت میں شروع سے ہی کیا جارہا تھا۔اس سلسلہ میں میرے پہلے مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘میں بہت سارے اقتباسات دے کر اس حقیقت کو واضح کیا جا چکا ہے۔یہ مضمون سچ مچ میں پڑھ لیا ہوتا تو اس قسم کے اعتراضات گھڑنے کی نوبت نہ آتی کہ ہم مل کر جدید ادب میں’’ کاروائیاں‘‘ کرتے تھے۔ایک متضاد سوچ کے حامل کو ہم نے رسالے میں جگہ دی، اس کی واضح وجہ تھی،سرقہ اور جعل سازی میرا اہم مسئلہ ہے اور میں گزشتہ بارہ برسوں سے یورپ میں بیٹھ کریہ کام کر رہا ہوں اور حسبِ توفیق یار لوگوں سے گالیاں کھا رہا ہوں۔ سو جب بھنڈر صاحب نے ترجمہ بلا حوالہ کے نام پر کچھ لکھا تو میں نے اپنے معمول کے مطابق اسے اہمیت دی۔تاہم میں نے دیکھا کہ وہ سو صفحات لکھتے ہیں تو اس میں سے بمشکل دس صفحات کام کے نکلتے ہیں۔چنانچہ میں ان سے بیزار ہو گیا تھا۔پھر ان کی بد تمیزی کے بعد(اس کا سارا ذکر میرے پہلے مضمون میں آچکا ہے)ان سے بالکل قطع تعلق کر لیا تھا۔اس کے باوجود ان کو جب بھی کسی طرف سے مار پڑتی تو پھر بھاگ کر میرے پاس آتے۔اس کی ایک تازہ مثال اِسی برس کی ہے۔جب نظام صدیقی صاحب نے ایک مضمون میں ان کی ٹھیک ٹھاک مرمت کی تو پھر میری طرف بھاگے۔۱۳؍جنوری ۲۰۱۱ء کو مجھے ای میل بھیجی،اس میں نظام صدیقی کا مضمون بھیجا اور ساتھ لکھا کہ اقبال نوید اس کا جواب لکھنے کو تیار ہے۔میں نے تب بھی ان کو جھٹک دیا تھا۔
’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ریلیز کیے جانے کے بعد مجھے سنجیدہ ادبی شخصیات کی طرف سے اچھا ردِ عمل موصول ہوا،اس سارے ردِ عمل کو یکجا کرتا جا رہا ہوں۔شائع بھی کرتا جا رہا ہوں۔اسی دوران بھنڈر صاحب نے سرقہ کے الزام سے اپنی بریت کے لیے ایک چالاکی سے کام لینا چاہا ۔تب میں نے’’بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ نامی وضاحت میں ان کی اصلیت مزید کھول دی۔انٹر نیٹ پر جو ہنگامہ برپا رہا۔اس میں میری شمولیت نہیں تھی۔ڈاکٹر فریاد آزر اور ارشد خالد نے وہاں کچھ اچھے جواب دئیے۔وہاں ہونے والی بحث کا جتنا میٹر مجھے دوستوں نے فارورڈ کیا،اسے سامنے رکھ کر میں نے ایک اور مضمون مکمل کر لیا ہے جس کا عنوان ہے’’عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی‘‘۔یہ پہلے مضمون جیسا ہی مدلل،مربوط اور طویل مضمون ہے جس میں ہر بات شواہد کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
میرے پہلے مضمون کے جواب میں عمران بھنڈر صاحب دیر تک سکتہ کی حالت میں رہے،جب ہوش میں آئے تو ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر جیسے صاحبانِ علم کے خلاف زہر اگل کر سمجھ لیا کہ میری طرف سے پیش کیے گئے حقائق کا جواب دے دیا ہے۔میں بھنڈرصاحب کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ وزیر آغا اور انور سدید کے مقابلہ میں ان کا ذکر بھی کروں۔اعظم وڑائچ صاحب نے بھی کسی رنگ میں یہی بات کہی ہے۔تو پھر بھنڈر صاحب نے ابھی تک جواب کہاں دیا ہے۔ناصر عباس نیر صاحب کو میں نے بھنڈر صاحب کے بے تکے الزام سے آگاہ کیا تھا،انہوں نے تب ہی مجھے یہ عالمانہ جواب لکھ کر بھیجا تھا۔میں نے اسے انٹرنیٹ پر نہیں دیا کیونکہ وہاں میں سنجیدہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے لیے مناسب ماحول نہیں دیکھتا۔وہاں سماجی تعلقات کے حوالے سے اچھی گنجائش ہے سو سماجی تعلقات بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔اب چونکہ اخبار میں ناصر عباس نیر کے بارے میں بھی بغیر کسی ثبوت کے بات کر دی گئی ہے تو ان کا وہ جواب یہاں درج کر دینا مناسب ہے جو انہوں نے میرے استفسار پر لکھا تھا:
’’میں اپنے اور اپنے مضامین کے خلاف لکھی گئی تحریروں کا جواب دینے کا قا ئل نہیں ہوں، اس لیے کہ بہ قول منیر نیازی :
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
مگر عمران بھنڈر نامی ایک نو وارد لکھنے والے نے میری ایک تحریر پر سرقے کا بہتان لگایاہے۔موصوف اس علمی مرتبے کا حامل نہیں کہ اس کی باتوں پر دھیان دیا جائے، مگر بہتان اس قسم کا ہے کہ اردو ادب کے قارئین میں غلط فہمیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، اس لیے نہایت اختصار کے ساتھ اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
راقم نے چند سال پہلے ڈاکٹر وحید قریشی کے ارشاد کی تعمیل میں ساختیات اور مابعد جدیدیت پر کتابیں مرتب کی تھیں جو مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،لاہورسے شایع ہوئی تھیں۔ان کتابوں میں ان تنقیدی نظریات کی اصطلاحات کی فرہنگ بھی شامل کی گئی تھی۔ یہ فرہنگ بعض رسائل میں بھی چھپی۔ ان اصطلاحات میںآئیڈیالوجی بھی شامل تھی جو ادراک میں شایع ہوئی۔ فرہنگ ہمیشہ تالیف ہوتی ہے۔فرہنگ کے مشمولات ،مقالہ نہیں ہوتے۔ راقم دونوں کی رسمیات اور آداب سے واقف ہے اور ہر دو میں ان کا مقدور بھر لحاظ رکھتا ہے۔راقم نے ہر اصطلاح کے آخر میں ان کتابوں کے حوالے دیے ،جن سے استفادہ کیا گیا ۔آپ جانتے ہیں بہتان ہمیشہ کسی منفی جذبے کے تحت لگایا جاتا ہے اور اس جذبے کی زد پر آکرآدمی اصل باتوں کو چھپاتا یا انھیں مسخ کرتا ہے۔جمعہ جمعہ آٹھ دن کے اس ادیب نے بھی یہی کچھ کیا ہے۔یہ بات نہیں بتائی کہ وہ جن کتابوں سے سرقہ ثابت کر رہا ہے،ان کی پوری تفصیل ہر اصطلاح کے آخر میں دی گئی ہے۔وہیں سے وہ ان کتابوں کے ناموں سے واقف ہوا ہے۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘
(ناصر عباس نیربنام حیدر قریشی )
ناصر عباس نیر صاحب کی اس وضاحت کے بعد اب میری گزارش یہ ہے کہ جو دوست ان سارے حقائق کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں،وہ میرے مذکورہ بالا مضامین اور دوسرے میٹرکو تحقیقی زاویے سے مطالعہ کریں اور پھر جو بھی لکھیں میں اس کا احترام کروں گا۔یہ بات خلافِ واقعہ ہے کہ بھنڈر صاحب نے مجھ پر گوجرانوالہ میں کوئی مقدمہ کر دیا ہے۔یہ ان کا چھوڑا ہوا شوشہ ضرور ہے لیکن وہ کہیں بھی میرے خلاف مقدمہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں۔میرے حوالے سے احمدی اور بہائی سلسلہ کی باتوں کا ان ادبی معاملات سے کیا تعلق ہے؟مجھے افسوس ہے کہ میں ان ساری باتوں کے پیچھے اپنے اُن’’احمدی کرم فرماؤں‘‘ کے چہرے صاف دیکھ رہا ہوں۔جنہوں نے وڑائچ صاحب کو یہ باتیں فیڈ کی ہیں(کرائی ہیں)۔ عجیب بات ہے کہ ہم دنیا بھر میں اپنی مظلومیت کا ذکر بھی کرتے ہیں اور کہیں کوئی ذاتی عناد ہو توپاکستانی ماحول کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہاں اپنے ہی بندوں کے بارے میں ایسی ایکسپلائے ٹیشن بھی پورے ایمانی جوش و خروش کے ساتھ کر لیتے ہیں۔میں ان’’ جلوہ‘‘ افروزدوستوں کی بلند ’’پروازی‘‘ کی داد دیتا ہوں ۔خدا ان سب کوستیہ پر قائم رکھے اور آنند عطا کرے۔لیکن کمال کی بات ہے کہ ایک طرف میرے لیے احمدی اور بہائی کے تمغے ہیں تو دوسری طرف مجھے طالبان میں سے بھی قرار دیا جارہا ہے۔میں ان ساری باتوں پر ہلکا سا مسکرا سکتا ہوں۔لیکن ان سب کا ادب سے ادبی معاملات سے کیا تعلق ہے ؟۔
مزید کسی لمبی بحث سے بچنے کے لیے یہاں اپنے دونوں مضامین کے خلاصۂ کلام کے طور پر سات نکات پیش کر دیتا ہوں۔عمران بھنڈر کے پاس ان کا کوئی سیدھا سادہ اور شریفانہ جواب ہے تو سامنے لائیں۔
خلاصۂ کلام:
۱۔عمران شاہد بھنڈر نے2007ء میں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوع Postmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ء سے لے کر جون 2011ء تک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔
۲۔خود کو شعبۂ تعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂ تعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂ تعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟
۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود’’ نوجوان فلسفی‘‘ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ’’نابغہ‘‘ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔
۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔
۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔
۶۔عمران شاہد بھنڈر جو سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے خود ہی اپنی تعریف میں اوراپنے مخالفین کی مذمت میں مضامین لکھتے رہے ہیں،اس بارے میں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر ان کا کم سن بیٹا ہے۔بچے کی قانونی حیثیت کیا ہے،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن عمران بھنڈر ابھی تک خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتے رہے ہیں،تو دوسروں پر غلیظ اور جھوٹے حملے کرنے سے پہلے غیر شادی شدہ باپ کی حیثیت سے انہیں اپنی اخلاقی حیثیت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔
۷۔’’نوجوان فلسفی‘‘ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔
آخری نکتہ کے سلسلہ میں وضاحت کر دوں کہ اردو کے اچھے اور معیاری ادب کا وہ جو بھی انتخاب کریں،اس کا مطالعاتی جائزہ پیش کرتے وقت ان پر پابندی ہو گی ۔وہ اپنے ایم اے کے نصاب والے مفکرین کانٹ،ہیگل،مارکس اور دریدا کا کوئی ذکر نہیں کریں گے۔اردو ادب کا مطالعہ مذکورہ مفکرین کے حوالوں کے بغیر ہونا چاہیے۔یہ کھلی حقیقت ہے کہ ایم اے کے ان نصابی ناموں کے علاوہ انہیں کچھ آتا ہی نہیں ہے۔یہ میری طرف سے پوری ادبی دنیا کے سامنے بھنڈر صاحب کو چیلنج ہے۔یہ سنجیدہ اور عملی تنقید کا کام کرکے ہی وہ کسی شمار میں آئیں گے۔متعدد ادیبوں نے اردو میں ترجمہ بلا حوالہ یا سرقات و جعلسازی کی نشان دہی کی ہے لیکن محض یہ کام کسی کو نقاد ثابت نہیں کرتا ۔ان ناقدین اور محققین کی شناخت کسی کے سرقہ کی نشان دہی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس کام کی بنیاد پر ہے جو عملی تنقید کے طور انہوں نے پیش کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ مضمون سات اور آٹھ ستمبر ۲۰۱۱ء کی درمیانی رات میں لکھا گیا اور انچارج ادبی ایڈیشن روزنامہ ’’انصاف‘‘کو بھیج دیا گیا)
(مطبوعہ روزنامہ انصاف لاہور۔۱۴؍ستمبر۲۰۱۱ء)
اخبار میں مطبوعہ مضمون کے آخر میں یہ نوٹ بھی دیا گیا ہے:
’’زیر نظر مضمون میں کیونکہ حیدر قریشی صاحب نے محمد اعظم وڑائچ کے کالم کا جواب دیتے ہوئے عمران شاہد بھنڈر پر الزامات کا پلندہ ڈال دیا ہے۔اس لیے اگر وہ اپنی صفائی میں کچھ لکھنا چاہے تو’’انصاف‘‘کا ادبی ایڈیشن غیر جانبدار ہوتے ہوئے ان کے لئے حاضر ہے۔‘‘

Mittwoch, 14. September 2011

عمران بھنڈر کاسرقہ اور جعل سازی

’’عمران بھنڈر کاسرقہ اور جعل سازی ‘‘
حیدر قریشی

مدیر جدید ادب جرمنی

میں نے جب اپنا مضمون’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ لکھا تھا تو ایک ولولہ انگیز قسم کی کیفیت ضرور تھی۔اسی کیفیت نے اس مضمون کو اتنا مدلل اور مربوط طور پر لکھنے کی توفیق دلائی۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ مضمون بعض ادبی حلقوں میں اس حد تک زلزلہ انگیز ثابت ہو گا۔مضمون کی اشاعت کے بعد انٹر نیٹ کی دنیا میں بھونچال سا آگیا۔تاہم یہ سارا بھونچال اشعر نجمی صاحب اور جمیل الرحمن صاحب کا برپا کردہ تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے دوستوں کو بھی اس حوالے سے اپنے اپنے موقف کے مطابق اظہارِ خیال کرنا پڑا۔اس سلسلہ میں خاص طور پر ڈاکٹر فریاد آزر اور ارشد خالدصاحبان نے بڑا مدلل ردِ عمل پیش کرکے سارے زلزلہ اور طوفان کو چائے کی پیالی میں اٹھایا جانے والا طوفان ثابت کر دیا۔ مجھے جتنا ریکارڈ مل رہا ہے اس میں سے نسبتاََ معیاری حصے الگ کر رہا ہوں ۔وہ معیاری اختلاف کرنے والے ہوں یا اتفاق کرنے والے۔بعض دوست جنہیں ایک معیار کی حد میں دیکھا تھا انہیں ان کی حدکی سطح سے گرتا ہوا بھی دیکھ رہا ہوں۔اسی طرح اس دوران بعض دوستوں نے جو فیس بُکی مجمع بازی شروع کی ہے اس کا بھی لطف لے رہا ہوں ۔اب اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لے کر ساری بحث کو سمیٹوں گا،ایک ایسا مضمون لکھا جا سکے گا جسے لکھنے کا ارادہ پہلے میرے ذہن میں بالکل نہیں تھا۔
جب میں نے اپنا مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘مکمل کر لیا تھا تو سب سے پہلے شمس الرحمن فاروقی صاحب کو بھیجا تھا اور ان سے ان کی رائے اور مشورہ مانگا تھا۔انہوں نے عنایت کی مجھے اپنی رائے اور مشورے سے نوازا۔انہوں نے اپنے خط میں ایک خدشہ کا اظہار کیا تھا۔وہ انہیں کے الفاظ میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔
’’یہ بھی غور فرمالیجیے کہ اس مضمون کی اشاعت سے آپ کے پرچے کی ساکھ اور آپ کی ساکھ پر اثر پڑ سکتا ہے۔لوگ کہیں گے کہ کل تک تو آپ بھنڈر کو اٹھائے اٹھائے پھر تے تھے اور آج کیا ہوا جو اس میں اتنی برائیاں ثابت کی جا رہی ہیں۔نارنگ کے حامی یہی کہیں گے کہ قریشی صاحب کا جھگڑا کسی اور ہی بات پر ہوا ہوگا۔کچھ ذاتی مفادات کا تصادم ہوگا۔اب قریشی صاحب اسے یہ رنگ دے رہے ہیں۔میں جانتا ہوں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے‘‘۔(شمس الرحمن فاروقی بنام حیدر قریشی ۱۶؍جولائی ۲۰۱۱ء)
اس کے جواب میں ۱۷ جولائی کی میری ای میل میں فاروقی صاحب کی خدمت میں یہ الفاظ لکھے گئے:
’’میں نے جو لکھا ہے اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جس پر مجھے شرمندگی ہو۔نہ ہی جوابی الزام تراشیوں میں میرے حصہ میں کوئی ایسا ادبی الزام و اقدام ہے جس پر مجھے ندامت ہو۔بلکہ کسی اعتراض کی صورت میں مزید کئی حقائق بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں جو تب سے ہی میرے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔‘‘
مضمون کی اشاعت کے بعد محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خدشہ کے مطابق اعتراضات تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے احباب نے کرنا تھے لیکن عجب ماجرا ہواکہ بجائے نارنگ صاحب کے دوستوں کے خود شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قریبی احباب نے نہ صرف اس پر طوفان کھڑا کیا بلکہ عین وہی اعتراض کیے جن کا ذکر فاروقی صاحب اپنے خط میں کر چکے تھے۔نہ صرف وہی اعتراض کیے گئے بلکہ فاروقی صاحب کے اپنے الفاظ کے مطابق’’ میں جانتا ہوں کہ حقیقت اور ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے‘‘جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر افواہ سازی سے پوری طرح کام لیا گیا۔میں یہ سوچتا رہ گیا کہ خدشہ تو فاروقی صاحب کا لفظ بلفظ درست ثابت ہوا لیکن مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایسا نارنگ صاحب کے دوستوں نے نہیں کیا ،شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوستوں نے کیا اور بڑے منظم طریقے سے کیا۔ مجھے اس ساری صورتِ حال پر ان دوستوں پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا فاروقی صاحب پر ہوا ۔مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ وہ مجھے خدشہ سے آگاہ کر رہے تھے یا بالواسطہ طور پر کسی رنگ میں دھمکی دے رہے تھے۔ شاید وہ خود ہی اس بارے میں کچھ بتا سکیں۔
اشعر نجمی اور جمیل الرحمن دونوں فاروقی صاحب کے کتنے قریب ہیں اس کے لیے کسی نشان دہی کی ضرورت نہیں ہے۔ادبی بنیادوں پر ایسی قربت کو میں برا نہیں جانتا۔لیکن اگر فیض پانے والے دوست ایسے کارندے کا کردار ادا کرنے لگیں،جس کے فرائض میں کسی دلیل کو پتھر سے توڑنے کی مشقت شامل ہو تو یہ کوئی اچھا رویہ نہیں رہتا۔نارنگ صاحب کیحامیوں نے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا تھا جس کا سب سے زیادہ نقصان ڈاکٹر نارنگ صاحب کو اٹھانا پڑا۔اب یہ طرزِ عمل اشعر نجمی اور جمیل الرحمن نے اختیار کر لیا ہے اور اس کا نقصان علمی و ادبی سطح پر بہر حال فاروقی صاحب ہی کو پہنچے گا۔
جہاں تک جعلی پی ایچ ڈی اسکالر،جعلی شعبہ تعلیم سے وابستہ استاد،اور سارق عمران بھنڈر صاحب کا تعلق ہے،ان کے بارے میں پہلے پوری صراحت کے ساتھ جو کچھ لکھ چکا ہوں اس میں سے بیشتر باتوں کے گواہ خود اشعر نجمی اور جمیل الرحمن صاحبان رہے ہیں۔اس کے باوجود انہوں نے نہ صرف ان باتوں کے معاملہ میں بد دیانتی کی حد تک تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا بلکہ انتہائی جارحانہ انداز میں ایسی افواہیں اڑائیں اور ایسی افسوسناک الزام تراشیاں کیں اور کرائیں کہ ان کا جواب دیتے ہوئے بھی ندامت کا احساس دامن گیر رہے گا کہ یہ کیا لوگ ہیں اور ان کی کیا تہذیب اور اخلاقیات ہے۔
پہلے اشعر نجمی صاحب کے حوالے سے چند حقائق پیش کردوں۔جب نارنگ صاحب کے حامیوں کے ساتھ میری جنگ اپنے عروج میں داخل ہو رہی تھی(وہ جنگ ۹۰ فی صد میں نے اپنے بل پر لڑی تھی اور اس کا پورا ریکارڈ عکاس کے نارنگ نمبر اور میری کتاب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت میں محفوظ ہے۔)عین اس وقت بھی نہ صرف عمران بھنڈر صاحب کے ساتھ میری بول چال بند تھی بلکہ ان کے بارے میں میرے وہی خیالات تھے جن کا اظہار میں اپنے مضمون’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘میں کر چکا ہوں اور تب حیران کن حد تک اشعر نجمی صاحب ، عمران بھنڈر صاحب کے مقابلہ میں نہ صرف مجھ سے اتفاق کر رہے تھے بلکہ میرے رویے کو سلام بھی پیش کر رہے تھے۔ اس حوالے سے بہت ساری ای میلز میرے ریکارڈ میں محفوظ ہیں یہاں صرف چند ای میلز کے اہم حصے ایک تسلسل میں پیش کر دیتا ہوں۔
میری ای میل اشعر نجمی صاحب کے نام:
’’برادرم اشعر نجمی صاحب! سلام مسنون
عمران شاہد بھنڈر صاحب کا معاملہ یوں ہے کہ ایک تو طویل لکھتے ہیں پھر اس میں مسلسل اضافے کرکے ایک ہی فائل کو بار بار تبدیل کرکے بھیجتے ہیں۔مجھے انہوں نے ایک بار خط کی طرز پر ایک مضمون بھیجا جوجدید ادب شمارہ ۱۱ کے ۱۹ صفحات پر مشتمل تھا۔حسبِ عادت انہوں نے پھر اس میں بھی اضافہ کیااور مجھے نئی فائل بھیج دی۔چونکہ ہر شمارہ کی ان پیج فائلز کو ایک ہی فولڈر میں جمع کرتا ہوں۔ اس لیے ان کی دونوں فائلز ایک ساتھ موجود تھیں اور شامل کرتے وقت آخری فائل کی بجائے اس سے پہلے والی فائل شامل ہو گئی۔ رسالہ چھپنے کے لیے جا چکا تھا جب ان کا فون آنے پر میں نے انہیں بتایا کہ آپ کا خط ۱۹ صفحات پر محیط ہوگیا ہے تو علم ہوا کہ نیا خط تو ۲۹ صفحات پر محیط ہونا چاہیے تھا۔جب دوبارہ جانچ کی تو علم ہوا کہ لاسٹ کی بجائے سیکنڈ لاسٹ فائل چھپ رہی ہے۔اب عمران شاہد کا مطالبہ تھا کہ رسالہ کی اشاعت رکواؤں اور یا تو ان کے خط کا لاسٹ ورشن چھاپوں یا پھر خط ہی نکال دوں۔رسالہ ایجوکیشنل والوں کے پاس نہ صرف جا چکا تھا بلکہ چھپ بھی چکا تھا اور بائنڈنگ کے مراحل سے گزر رہا تھا۔جب میں نے معذرت کی تو ان کا تحکمانہ انداز حیران کن تھا۔انہوں نے مجھے ای میل بھیجی کہ اس خط کی اشاعت ان کے خلاف سازش ہے اور یہ کہ آج سے ادب کی دنیا سے اپنا نام ختم سمجھوں۔میں نے ان کی وہ ساری ای میلز سنبھال رکھی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا وہ انداز آج بھی پڑھتا ہوں تو گھن آتی ہے۔یہ میں نے بہت اختصار سے لکھا ہے،وگرنہ بیچ میں ایک دو اور بے ہودہ ای میلز کا ذکر بھی آتا ہے۔تب میں نے انہیں اتنا لکھا کہ ہمارا تعلق تو اب ختم سمجھیں البتہ میں چاہوں گا کہ ابھی ہماری لڑائی دنیا کے سامنے نہ آئے ورنہ نارنگ صاحب کے لیے تماشہ بنانا آسان ہو جائے گا۔
دوستی کے دنوں میں بھی میں نے شمارہ ۱۰ میں جدیدیت پر ان کے حملوں پر اپنے تحفظات کا اظہار آن ریکارڈ کیا تھا اور روحانی اقدار کو مجہولیت کہنے پر اپنے شمارہ نمبر ۱۱ کے اداریہ میں اظہار خیال بھی کیا تھا۔۔۔۔میں نے علمی ، ادبی و تہذیبی انداز میں نہ صرف ان کی دہریانہ باتوں سے اختلاف کیا بلکہ ان کا رَد ان کے مادی ذہن کے مطابق بھی کیااور کہیں بھی تحکمانہ انداز یا تضحیکی انداز اختیار نہیں کیا۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔میری دانست میں جو شخص بار بار اپنی علمیت جتاتا ہے اور دوسروں کی تضحیک کرتا ہے وہ زیادہ دیر تک آگے نہیں جا سکتااور بالآخر بے برکتی کا شکار ہوجاتا ہے۔عمران شاہد میں یہ’’ خوبی ‘‘بدرجۂ اتم موجود ہے۔ان میں ایک اور’’ خوبی‘‘ جو میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی کے نوٹس ، اور نئے مطالعہ کو بھی کسی نہ کسی طور اپنے مضامین میں نہ صرف گھسیٹ لاتے ہیں بلکہ وہی مطالعہ خوامخواہ مضامین کی بے جا طوالت کا باعث بنتا جاتا ہے۔فضیل جعفری ۱۹۹۷ء میں لکھ چکے ہیں کہ نارنگ صاحب جن کتابوں کے حوالے درج کر رہے ہیں لگتا ہے انہوں نے اصل کتابیں مطالعہ نہیں کیں اور عمران اب ناقدین پر اعتراض کر رہے ہیں کہ کسی نے کیوں اس طرف دھیان نہیں دیا۔اسی طرح ہمارے مقتدر ناقدین کی گراں قدر علمی خدمات کو محض چند جملوں سے رد کردینا بجائے خود متکبرانہ انداز ہے۔بس ان کی اصل خوبی یہی ہے کہ پی ایچ ڈی سے پہلے اردو میں مابعد جدیدیت پر جو کچھ پڑھا تھا وہ اصل کتابوں کو پڑھنے کے بعد انہیں یاد آتا گیا اور نارنگ صاحب کے بھید کھلتے گئے۔ان کا اب تک کا ادبی کام یہی ہے کہ انہوں نے نارنگ کے سرقوں کو سب کے سامنے رکھ دیا ہے۔یہ بھی بڑا اعزاز ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ باقی کے معتبر اور قابلِ احترام ناقدین کی کسی ثبوت کے بغیر بے حرمتی شروع کر دی جائے۔
آج بہت سارے کاموں میں مصروف رہا ہوں۔لیکن اب رات گئے آپ کو میٹر بھیجنے کی بجائے یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔عمران صاحب سرقوں کے حوالے سے جتنا کام کر رہے ہیں وہی ان کا ابھی تک کا اصلی کام ہے۔باقی باتیں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی بجائے کوزے کا دریا بنانے والی ہیںیہ باتیں صرف آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام آپ کا مخلص حیدر قریشی ۲۸؍فروری ۲۰۰۹ء‘‘
عمران بھنڈرصاحب کے پی ایچ ڈی کا ذکر اس لیے شامل ہے کہ تب تک ہمیں وہ یہی دھوکہ دے رہے تھے کہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔اب تو یہ بات بھی ان کی جعلسازی ثابت ہو چکی ہے۔بہر حال ان کی اس جعلسازی سے سرِ دست قطع نظر کرتے ہوئے،اس میل کے جواب میں آنے والی اشعر نجمی صاحب کی ای میل کا متعلقہ حصہ پیش کرتا ہوں۔
’’میں نے آپ کا ان پیج کا خط پڑھا۔مجھے یہ بہت پہلے سے احساس توہو چلا تھا کہ آپ دونوں کے درمیان کچھ دوریاں آچکی ہیں،لیکن اس کا اظہار کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا کیونکہ یہ بالکل ذاتی قسم کا معاملہ ہے۔لیکن اب جب آپ نے پوری کہانی بتائی تو میں نے ایک بار میں ہی اس کی صداقت پر یقین اس لیے کر لیا کہ اُن تمام تجربوں سے میں بھی گزر رہاہوں،جس سے آپ گزر چکے ہیں۔طوالت کے علاوہ بار بار نظر ثانی عمران صاحب کی کمزوریاں ہیں۔انہوں نے جو کچھ پڑھا ہے وہ سب ایک ہی مضمون میں وہ سمونے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو طوالت اور پیچیدگی کا سبب بن جاتی ہیں۔آپ جیسا کہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے آپ کو ای میلز لکھ کر بڑے غیر مناسب انداز میں اپنا احتجاج درج کرایا،تو میں اُن ای میلز کو ضرور دیکھنا چاہوں گا۔اشعر نجمی یکم مارچ ۲۰۰۹ء‘‘
میں نے اشعر نجمی کی اس میل کے نتیجہ میں انہیں وہ ای میلز بھیج دیں جو بدزبانی پر مشتمل تھیں۔وہ میلز پڑھنے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے مجھے لکھا:
’’شکریہ اس بات کے لئے کہ آپ نے مجھے حقیقت سے آگاہ کیا تاکہ میں مستقبل میں خود کو اس طرح کی بد تمیزیوں سے محفوظ رکھ سکوں۔لیکن ایک بات تو میں ابھی بول دیتا ہوں کہ میں فطرتاََ سوفٹ سپوکن ہوں لیکن جب اس طرح کا معاملہ آجاتا ہے تو میں اپنے حریف کو اگلا وار کرنے کا موقعہ بھی نہیں دیتا۔دعا کریں کہ میرے ساتھ ایسی حرکت کوئی نہ کرے کہ اس میں حرکت کرنے والے کا ہی نقصان ہے۔آپ کے تحمل اور برداشت کومیں سلام کرتا ہوں ۔آپ طبعاََ شریف آدمی ہیں،اس لیے آپ نے اتنا کچھ ہوتے ہوئے بھی عمران کو معاف کر دیا‘‘ (اشعر نجمی کی ای میل ۲ مارچ ۲۰۰۹ء)
عمران بھنڈر کو معاف کر دینے والی بات پر میں نے اشعر نجمی کو جو ای میل بھیجی اس کا ایک حصہ بھی پیش کیے دیتا ہوں۔
’’میں نے عمران کو معاف نہیں کیا،بس خاموشی اس لئے اختیار کی ہے کہ نارنگ کے سامنے تماشا بنا تو وہ اپنی چوریوں سے بری ہو جائیں گے اور الٹامذاق ہم لوگوں کا اُڑے گا۔جدید ادب میں تو ان کے دوبارہ چھپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جہاں تک سرقوں کی نشان دہی کا تعلق ہے وہ بات پوری ہو چکی۔اس سے آگے ادبی منظر نامے پر عمران کی نگاہ بہت محدود ہے۔سینئرز کو پڑھے بغیرہر کسی کو نارنگ کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں،جو بجائے خود بد تہذیبی ہے۔میرا خیال ہے کہ سرقے کا باب مکمل کرکے آپ ان کی دوسری تحریروں کے لئے اپنے معیار اور رسالے کے مزاج کو فوقیت دیں۔‘‘(میری جوابی ای میل بنام اشعر نجمی ۲ مارچ ۲۰۰۹ء)
ان چند ای میلز سے ایک تو یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عمران بھنڈر کی ذاتی نوعیت کی بد تمیزی سے لے کر ان کی تحریروں میں پائی جانے والی عمومی بد تہذیبی تک میری رائے شروع سے وہی تھی جو ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘مضمون میں میری طرف سے نسبتاََ صراحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔دوسرا یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اشعر نجمی صاحب ان معاملات میں بڑی حد تک مجھ سے متفق تھے۔یہ ساری باتیں شئیر کرنے کے بعدمیں نے اپریل ۲۰۰۹ء میں انہیں سہ ماہی دستک ہوڑہ میں چھپے اپنے ایک خط سے آگاہ کیا۔یہ خط عمران بھنڈر کی ادبی ( غیر ادبی) پیدائش سے دس سال پہلے شائع ہوا تھااور اس میں میری طرف سے مابعد جدیدیت کے حوالے سے کچھ باتیں کی گئی تھیں۔اس خط کو پڑھنے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے اپنی ۴؍اپریل ۲۰۰۹ء کی ای میل میں مجھے لکھا:
’’اس خط میں پوسٹ ماڈرن ازم کے تعلق سے جو سٹینڈ آپ نے شروع میں لیا تھا،وہ آج بھی قائم ہے‘‘
اب عمران بھنڈر کی جعلسازیوں اور سرقہ کے دفاع میں انتہائی حد تک جاتے ہوئے انہوں نے ’’جدید ادب‘‘کی ادبی حیثیت پر بھی حملے کیے اور کرائے ہیں اور بحیثیت ادیب میری حیثیت کو بھی زد پر رکھا ہے کیونکہ اس کے بغیر عمران بھنڈر کی جعلسازیوں اور سرقہ سے توجہ ہٹائی نہیں جا سکتی تھی۔’’جدید ادب‘‘کے بارے میں میری طرف سے بارہا لکھا جا چکا ہے،کہا جا چکا ہے کہ جب تھوڑے بہت وسائل میسر ہوتے ہیں تو میں رسالہ جاری کر لیتا ہوں۔اس کے اجراء کو میں کوئی ادبی خدمت قرار نہیں دیتا کیونکہ رسالہ نکال کر ادب کی خدمت کرنے والے پہلے ہی بہت ہیں۔میں اپنی ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں اور اس ادبی زندگی میں ادبی رسالہ’’جدید ادب‘‘ بھی شامل ہے۔کسی کو اچھا لگتا ہے تو اس کی محبت ہے،کسی کو اچھا نہیں لگتاتو اسے اپنی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔تاہم اشعر نجمی صاحب کو یہ ضرور یاد دلانا چاہوں گا کہ وہ مجھ سے جدید ادب میں چھپی ہوئی نگارشات بھی منگوا کر اپنے رسالہ میں چھاپتے رہے ہیں،اور ایسی نگارشات فراہم کرنے پر میرا شکریہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔
جہاں تک میری ادبی حیثیت کا تعلق ہے ،میں کبھی نہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوا ہوں اور نہ ہی خودکو مایوس کن کیفیت میں پایا ہے۔ادبی طور میں جتناہوں مجھے اس کا پوری طرح ادراک ہے۔اس کے لیے خدا کا شکر گزار رہتا ہوں کہ اس نے مجھے صلاحیتیں عطا فرمائیں اور انہیں بروئے کار لانے کی توفیق بخشی۔اگر ساری دنیا بھی مجھے رد کر دے توبھی مجھے اطمینان ہے کہ خدا نے جتنامجھے بنایا ہے اتنا تو میں نے رہنا ہی ہے۔یہاں اشعر نجمی صاحب کی ایک ای میل پیش کرکے اس موضوع کو سمیٹتا ہوں۔میری کتاب’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ ملنے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے لکھا:
’’ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے آپ کی کتاب ملی۔اس کتاب نے زخم پر مرہم کا کام کیا۔اب تک میں آپ کی شاعری کا قتیل رہا ہوں لیکن اس کلیات میں شامل آپ کی نثر نے مجھے مبہوت کر دیا ہے۔ خاص کر آپ کے افسانے تو بہت خوب ہیں۔پتہ نہیں کیوں ہمارے نقادوں کو اس پر گفتگو کرنے کی توفیق نہیں ہوئی؟‘‘(اشعر نجمی کی ای میل بنام حیدر قریشی ۹ مارچ ۲۰۰۹)
یہ چند حوالہ جات اشارہ ہیں۔اشعر نجمی صاحب نے انٹر نیٹ پر جو طوفان برپا کیا اور کرایا ہے ،ان میں سے بیشتر حملوں کا سنجیدہ اور مدلل جواب ان حوالوں میں آگیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ جوابی طور پر میں اشعر نجمی صاحب کی وہ زبان استعمال نہ کروں جو عمران بھنڈر کی تقلید میں انہوں نے اختیار کر لی ہے۔ ہاں وہ ادبی رسائل میں جو کچھ اور جیسا بھی لکھیں گے اس کا بھرپور جواب ضرور ان کی خدمت میں پیش کروں گا۔انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ میں جب بھی کسی پر ہاتھ ڈالتا ہوں تو پکا ہاتھ ڈالتا ہوں۔
اب شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوسرے نیازمند جمیل الرحمن صاحب کے سلسلہ میں بھی چند حقائق پیش کردینا مناسب ہے تاکہ اس معاملہ میں ان کاکردار بھی ادبی طور پرپورے سیاق و سباق کے ساتھ محفوظ رہے۔پہلے میری کھٹی میٹھی یادوں’’ کے ایک باب سے ایک اقتباس:
’’مجھ پر آنے والے تکلیف دہ دنوں میں سے ایک وہ عرصہ تھا جب بے وزن شعری مجموعے رکھنے والوں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں نے مل کر میرے خلاف غلیظ مہم شروع کی تھی۔اس تمام عرصہ میں بھی میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا۔میرے خلاف مہم چلانے والے اس لائق نہیں کہ میں ان کے ناموں سے اپنی یادوں کے اس سلسلہ کو آلودہ کروں۔ان کا ذکر کسی اور جگہ پر ہی کافی رہے گا لیکن دو شخصیات اس غلیظ کھیل میں ایسی بھی شریک ہوئیں،جن کا صدمہ مجھے آج بھی ہے۔یہ شخصیات تھیں (تب)سویڈن میں مقیم ڈاکٹر پرویز پروازی اورہالینڈ میں مقیم جمیل الرحمن ۔دونوں صاحبان نے میرے جرمنی پہنچنے کے بعد مجھے خود ڈھونڈا اور خود مجھ سے رابطہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔جمیل الرحمن نے جب میرا اتہ پتہ ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا تب انہوں نے ادبی حوالے سے مجھے تعریف کی حد تک جوکچھ کہا،اسے درج کرنا مناسب نہیں ہے۔لیکن جب وہ پرویز پروازی کے کہنے پر میرے خلاف غلیظ مہم کے سپاہی بنے تو مجھے دلی صدمہ ہوا۔وہ جس طرح کی حرکتیں ہالینڈ سے لے کر ہندوستان اور پاکستان تک کرآئے تھے،مجھے ساتھ کے ساتھ ان کی رپورٹ مل رہی تھی۔اس مہم کے بعد کئی بار جمیل الرحمن کے فون آتے رہے۔میں نے انہیں ان کی کسی زیادتی کا احساس تک نہیں دلایا لیکن ان کے ساتھ کبھی گرمجوشی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔انسان کتنا ہی زیادتی کر لے اگر اس کی فطرت میں تھوڑی بہت نیکی کی رمق ہو تو ضمیر کچوکے ضرور لگاتا ہے۔چنانچہ ایک بار جمیل نے خود ہی کھل کر معذرت کی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا صرف استاد،شاگرد کے رشتے کی وجہ سے کیا۔میں نے تب بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔وقفے وقفے سے آٹھ دس بار ٹیلی فون کرنے کے بعد ایک بار انہوں نے گلہ کیا کہ وہ اتنی بار مجھے فون کرچکے ہیں جبکہ میں انہیں فون نہیں کر رہا۔میں نے تب بھی بات کو ٹال دیا۔اس سے اگلی بار جب جمیل الرحمن کا فون آیا تو مجھ پر برہمی کا اظہار کرنے لگے کہ میں ہر بار فون کرتا ہوں۔آپ فون نہیں کرتے۔تب میں نے اتنا جواب دے دیا کہ میں نے کب آپ سے کہا ہے کہ آپ مجھے فون کیا کریں؟اس دن کے بعد سے ان کا کوئی فون نہیں آیا یعنی ؂ وہ بھی ہیں آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے ‘‘ *
(’’جدید ادب‘‘ جرمنی شمارہ نمبر ۹۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء۔صفحہ نمبر ۱۷۹،۱۸۰۔’’عمرِ لاحاصل کا حاصل ‘‘صفحہ نمبر۴۹۰،۴۹۱،۔۔یادوں کا باب ’’روح اور جسم‘‘)
یادوں کے باب میں یہ ذکر چھپنے کے بعد جمیل الرحمن صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا،اس رابطہ کا حال بھی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔یادوں کے اسی باب کے آخر میں لکھا ہے:
’’* میری یادوں کا یہ باب جدید ادب کے شمارہ: ۹ میں چھپنے کے لئے پریس میں جا چکا تھا جب مجھے ایک مدت کے بعد پھر جمیل الرحمن کا فون آ گیا۔ان کا فون آنے سے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔میں نے انہیں کھل کر بتا دیا کہ میں نئے باب میں آپ کا ’’ذکرِ خیر‘‘ کر چکا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں،آپ نے جو لکھا،میں کچھ نہیں کہوں گا۔ان کے ساتھ مختلف ادبی موضوعات پر بات ہوئی۔’’رہے نام اللہ کا!‘‘کے مندرجات انہیں بہت پسند آئے تھے۔اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتے رہے۔سائنس،مذہب اور ادب کی اپنی اپنی خود مختاری کے ساتھ تینوں کے ربطِ باہم پر دلچسپ باتیں ہوئیں۔بحیثیت شاعر میں نے ان کی خوبیوں کو مانا ہے،خامیوں کا انہیں خود بخوبی علم ہے۔میں جمیل الرحمن سے اپنی شدید ناراضی کے دنوں میں بھی اپنے مضمون’’یورپی ممالک میں اردو شعرو ادب:ایک جائزہ‘‘میں نہ صرف ان کا ذکر کر چکا ہوں بلکہ انہیں یورپ کے ان معدودے چند شعراء میں شمار کیا ہے ،جو اردو شاعری کی نام نہاد بین الاقوامیت سے قطع نظر، اردو کی مین سٹریم یا ادب کے مرکزی دھارے کے اہم شعراء کے ہم پلہ ہیں۔ نجی سطح پر جو دکھ تھا وہ ان کی دوبارہ ٹیلی فون کال آنے پر ہونے والی کھلی اور دو ٹوک گفتگو نے دور کر دیا ہے۔شاید بہت ساری غلط فہمیاں عدم رابطہ کے باعث بھی ہو جاتی ہیں۔اللہ انہیں خوش رکھے۔ (ح۔ق)
(’’جدید ادب‘‘ جرمنی شمارہ نمبر ۱۰۔جنوری تا جون ۲۰۰۸ء۔صفحہ نمبر ۶۔بہ عنوان ’’ایک چھوٹی سی وضاحت‘‘)
اس تجدید دوستی کے بعدجمیل الرحمن صاحب پر ایک کڑا وقت بھی آیا اور ایک دوست کی حیثیت سے میں ان کی جو ڈھارس بندھا سکتا تھا،وہ میں نے بندھائی۔اس کا کچھ ذکر ریکارڈ پر موجود ہے اور پیش ہے: ’’ اسی دوران ہالینڈ سے لندن شفٹ ہوجانے والے دوست جمیل الرحمن کا فون آیا تواپنے بعض مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اتنے جذباتی ہو گئے کہ خودکشی کی بات کرنے لگے۔میں نے انہیں سمجھایاکہ میں پاکستان میں ایک بار ایسی کیفیت سے گزرا ہوں لیکن اب تو خدا کا فضل ہی فضل ہے۔پھر ان پر جو خدا کے فضل اور احسانات ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دلائی اور کہا کہ ہم بامراد لوگ ہیں،نامراد نہیں ہیں۔ سوخودکشی کا سوچنا بھی خدا کی ناشکری میں شمار ہوگا۔مجھے خوشی ہے کہ ایک نازک مرحلہ پر میں ایک دوست کے لیے زندگی بخش اچھی باتیں کر سکا اور اس کے لیے وقتی طور پر سہی سکون کا موجب بنا۔ ‘‘ (یادوں کا باب ’’زندگی در زندگی‘‘۔مطبوعہ ’’جدید ادب ‘‘جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۶۔جنوری تا جون ۲۰۱۱ء)
ان تین اہم اقتباسات سے جمیل الرحمن صاحب کے اور میرے درمیان تعلق کی نوعیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ان کی ادبی شخصیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اسی دور میں جب وہ تجدیدِ دوستی کر چکے تھے،ڈاکٹر نارنگ صاحب کیحامیوں کے ساتھ معرکہ برپا ہوا۔جمیل الرحمن صاحب فون پر تو باتیں کرتے رہے لیکن عملی طور پر انہوں نے عمران بھنڈر کے حوالے سے ایک لفظ تائید میں نہیں لکھا اور میری معرکہ آرائی کے وقت بھی انہیں تحریری طور پر ایک لفظ لکھنے کی توفیق بھی نہیں ملی۔ بس ٹیلی فون پر زبانی جمع خرچ کی حد تک باتیں کر لیا کرتے تھے۔اسی دوران جب عمران بھنڈر کی بد تمیزی اور بدزبانی والی ای میلز کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے جمیل الرحمن صاحب کو ساری صورتِ حال سے آگا ہ کیا۔انہوں نے عمران بھنڈر کے خلاف سخت لفظ استعمال کیے اور کہا کہ میں کسی اور کی گارنٹی نہیں دیتا لیکن اگر ایسے خبیث شخص کے ساتھ لڑنا پڑا تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔میں نے تب ہی انہیں بتا دیا تھا کہ جب تک نارنگ صاحب کے حامیوں والا محاذ بند نہیں ہوتا،میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔ہاں جب بھی یہ محاذ بند ہوا میں عمران بھنڈر صاحب کے سارے قرض چکاؤں گا،تب آپ ساتھ دے دیجیے گا۔لیکن شاید جمیل الرحمن صاحب کی قسمت میں ہمیشہ جعل سازی اور سرقہ کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کی حمایت کرنے والے لوگوں کے حلقہ میں شامل رہنا ہی لکھا ہوا ہے ۔اب جب ان کے وعدہ کے ایفا کا وقت آیا تو ساتھ دینا تو درکنار وہ کھل کر مخالفین کی صف میں کھڑے تھے۔ لگ بھگ دس سال پہلے کی طرح اس بار بھی کمین گاہ میں جمیل الرحمن صاحب موجود تھے۔یقیناََ انہیں اپنا وعدہ بھول گیا ہوگا لیکن شایدیہ ان کے ادبی مقدر کی بات تھی،اور ان کی ادبی شناخت میں شامل رہنا تھی۔
جمیل الرحمن صاحب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کسی فورم پرعمران شاہد بھنڈر کا بے دلیل جوابی مضمون’’وزیر آغا گروپ کے روایتی ہتھکنڈے‘‘شائع کیاتو اس کے جواب میں ارشد خالد صاحب نے میرا وضاحتی بیان بھی وہاں پوسٹ کر دیا۔وہ بیان انہوں نے عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے شمارہ نمبر ۱۴،ستمبر۲۰۱۱ء میں شائع کر دیا ہوا ہے۔یہاں اسی پیش کر دیتا ہوں۔
بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی
(عمران شاہد کاعذرِ لنگ اور اس کی اصل حقیقت)
میرے مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ کو ادبی حلقوں میں بھر پور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔اس کے جواب میں ابھی تک نام نہاد’’ نوجوان فلسفی‘‘ کو پوائنٹ در پوائنٹ جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔البتہ اپنی بدنامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بد زبانی سے لبریز ایک تحریر’’وزیر آغا گروپ کے روایتی ہتھکنڈے‘‘کے نام سے بعض ادیبوں کو بھیجی ہے۔اس میں ایک تو بات کو اصل موضوعات سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصل حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔صرف ایک علمی نکتہ پر اپنی صفائی دینے کی کوشش کی ہے اور صفائی دیتے ہوئی بد زبانی کی انتہا کر دی ہے۔تاہم وہ صفائی صرف حیلہ جوئی ہے۔
میرے مضمون میں عمران شاہد بھنڈرکے سرقہ کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے مضمون کا پورا حوالہ دیا گیا ہے۔مضمون’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی‘‘ از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ ’’دی نیشن‘‘۔لندن۔22؍مارچ 2007ء کا حوالہ۔بھنڈرصاحب کی جانب سے اخبار میں چھپنے والے اس مضمون میں کہیں بھی وہ وضاحتیں نہیں ہیں جو وہ اپنی کتاب کے حوالے سے دے رہے ہیں۔میں نے ان کی کتاب کا حوالہ دے کر سرقہ نشان زد نہیں کیا بلکہ ان کے ۲۰۰۷ء میں مطبوعہ مضمون پر ساری بات کی ہے۔اعتراض اخبار کے مضمون پر کیا گیا ہے، جواب میں تین سال کے بعد چھپنے والی کتاب کی بنیاد پر وضاحت کی جا رہی ہے۔
(اضافی نوٹ:)’’یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی تین سال پہلے چوری کرے اور تین سال کے بعد سب سے آنکھ بچا کر چپکے سے مالِ مسروقہ کو واپس اسی جگہ رکھنے کی کوشش کرے۔‘‘
اہلِ ادب نام نہاد نوجوان فلسفی سے پوچھیں کہ اخبار میں ۲۰۰۷ء میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ہوا ہے یا نہیں؟۔۔۔تین سال کے بعد کتاب میں کیا لکھا اور کیا نہیں لکھا،اس سے مجھے غرض نہیں۔دی نیشن لندن کے 22 ؍مارچ 2007 ء کے شمارہ میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ثابت شدہ ہے۔ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد!
جہاں تک نام نہاد نوجوان فلسفی کی دوسری باتوں اور غیر متعلقہ ہفوات کا تعلق ہے،اس کا جواب دینے کے لیے ان کی’’ مادری زبان‘‘ میں بات کرنا پڑے گی جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔میرے مضمون میں درج ہرالزام، واقعہ اور بیان مبنی بر صداقت ہے۔نام نہادنوجوان فلسفی ایک الزام سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو کئی اور الزامات بھی اُن پر آ پڑیں گے۔میرے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔باقی قانونی چارہ جوئی کی دھمکی عمران بھنڈر کی گیدڑ بھبکی ہے۔اور ان کے مذکورہ مضمون کی زبان خود ان کی علمی و ادبی حیثیت کو اجاگر کر رہی ہے۔
میں اپنے مضمون کا پارٹ ٹو دھیرے دھیرے لکھ رہا ہوں،اس میں عمران شاہد بھنڈر کے مزید سرقے پیش کر وں گا۔انشاء اللہ! حیدر قریشی (تحریر کردہ: ۹؍ اگست ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بیان کے سامنے آنے کے بعد جمیل الرحمن نے اپنے اسی فورم پر بار بار اعلان کیا کہ عمران شاہد بھنڈر اس کا جواب لکھیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ اُن کے جواب کے بعد اس موضوع پر اور کچھ نہیں شائع کیا جائے گا۔اس پر ارشد خالد صاحب نے ایک دوسرے فورم میں اچھا لکھا کہ جمیل الرحمن نے سنگ و خشت مقید ہیں او رسگ آزاد کا منظر دکھا دیا ہے۔بہر حال جمیل الرحمن صاحب کی سرتوڑ کوشش کے باوجود عمران شاہد بھنڈر کو جرات نہیں ہوئی کہ اپنے سرقہ کی صفائی دے سکتے،انہوں نے وہاں خاموشی اختیار کر لی اور تاحال میرے اس بیان کے جواب میں انہوں اپنے نام سے ایک لفظ نہیں لکھا۔جب بار بار بلانے کے باوجود عمران بھنڈر صاحب کو وہاں کوئی جواب دینے کی جرات نہیں ہوئی تو جمیل الرحمن صاحب نے از خود فیصلہ فرمادیا کہ یہ حیدر قریشی کون ہے ؟ (کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا! )اور ساتھ عمران بھنڈر کی ساری جعلسازیوں اور سرقہ کو معصومانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
عمران بھنڈر صاحب کے بارے میں ذرا آگے جا کرتفصیلی بات ہو گی ،یہ سب کچھ برسبیلِ تذکرہ آگیا ہے۔بات ہو رہی تھی نارنگ صاحب کیحامیوں کے ساتھ معرکہ آرائی کی۔عکاس کے نارنگ نمبر اور میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘کی اشاعت کے ساتھ وہ معرکہ سر ہو گیا۔لیکن جب وہ معرکہ سر کر لیا گیا عکاس کا نارنگ نمبر بھی چھپ گیا، میری کتاب بھی چھپ گئی تو پھر ایسے لگا جیسے کسی جلوس کے آگے دوسرے لوگ اپنے جھنڈے اور بینر لے کر آگئے ہیں۔اب جمیل الرحمن،زبیر رضوی اوراشعر نجمی اس معرکے کے میرِ کارواں ہیں۔(سب کہو سبحان اللہ!)
یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ جب نارنگ صاحب کیحامیوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا،تب نہ زبیر رضوی کہیں دکھائی دے رہے تھے،نہ جمیل الرحمن کو عملاََ ہماری حمایت میں ایک لفظ بھی لکھنے کی توفیق مل رہی تھی اور اشعر نجمی صاحب’’اثبات :۳ میں جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی چھاپنے کے بعد ، عین گھمسان کی جنگ کے دنوں میں کسی نا معلوم وجہ سے لگ بھگ سال بھر کے لیے انڈر گراؤنڈ چلے گئے تھے۔انڈر گراؤنڈ کا لفظ اس لیے لکھا ہے کہ وہ کسی سے بھی رابطہ میں نہیں آرہے تھے۔خود شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ان دنوں بعض احباب کو یہ بتایا کہ سنا ہے نارنگ صاحب نے انہیں کوئی فلم لکھنے کا کام دلا دیا ہے اس لیے وہ غائب ہو گئے ہیں۔(حالانکہ یہ بات غلط تھی۔لیکن ایسی سچوایشن میں بھی فاروقی صاحب کا شک نارنگ صاحب پر ہی گیا)ان بعض احباب میں جمیل الرحمن بھی شامل ہیں جنہیں فاروقی صاحب نے یہ بات کہی تھی اور مجھے بھی انہوں نے بتایا تھا۔تو یہ سارے لوگ جو گھمسان کی جنگ کے وقت پتہ نہیں کہاں غائب تھے،اب یہ سارے اس معرکہ کے ہیرو ہیں اور جمیل الرحمن جیسے دوست کو بھی یہ لکھنے کا اعزاز نصیب ہوا کہ یہ حیدر قریشی کون ہے؟
نارنگ صاحب کیحامیوں کے ساتھ معرکہ آرائی کے دوران مجھ پر مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کے لیے کام کر رہا ہوں اور گویا ان کا ایسا کارندہ ہوں جیسے جمیل الرحمن اور اشعر نجمی ہیں۔ اسی بنیاد پر نصرت ظہیر صاحب کے ساتھ جو لڑائی ہوئی اس میں فاروقی صاحب کو جی بھر کے ملامت کی گئی۔میں نے ان کے جواب میں اصل موضوع پر فوکس رکھا اور فاروقی صاحب کا کسی قسم کا دفاع نہیں کیا۔حالانکہ محض مجھے فاروقی گروپ کا بندہ قرار دے کر ان کے خلاف جو کچھ لکھا گیا تھا وہ خاصا تکلیف دہ تھا اور مجھے کئی بار یہ احساس ہوا کہ معاملات نارمل ہو جائیں تو فاروقی صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تلافی کی کوئی صورت نکالوں گا۔بات سیدھی سی تھی کہ نارنگ صاحب کیحامیوں کے ساتھ جو معرکہ برپا ہوا اس کے دوران ایک ورکنگ ریلیشن شپ فاروقی صاحب کے ساتھ ضرور بن گئی تھی۔ان کے بعض دوستوں کے ساتھ بھی یہی صورت بنی لیکن حقیقتاََ ان کے گروپ کا کارندہ ہو کر ان کے لیے کام کرنے والی کوئی بات نہیں تھی۔اب یہی الزام تراشی مسلسل فاروقی صاحب کے کارندوں کی طرف سے کی جا رہی ہے کہ بھنڈر صاحب کے خلاف میری ساری کاوش اس لیے ہے کہ میں نارنگ صاحب کے ساتھ مل گیا ہوں۔یہ اتنا ہی سچ ہے جتنا نارنگ صاحب کے دوستوں کی طرف سے لگایا جانے والا الزام سچ تھا اور اتنا ہی جھوٹ ہے جتنا نارنگ صاحب کے احباب کی طرف سے لگایا گیا الزام جھوٹ تھا۔ورکنگ ریلیشن شپ تب بھی تھوڑی بہت قائم ہوئی تھی۔اب بھی اگرنارنگ صاحب کے دوستوں کے ساتھ اُتنی ورکنگ ریلیشن شپ بن جائے تو مجھے یقیناََ اس انوکھی مخالفت کا مقابلہ کرنے میں سہولت ملے گی ۔جس کے لیے ڈرایا تو یہ گیا تھا کہ نارنگ صاحب کے ساتھی ایسا کہیں گے لیکن وہ سب کچھ خود فاروقی صاحب کے ساتھی مل کر کہہ رہے ہیں۔
میں نے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے ناول پر ایک مضمون لکھا تھا۔اس کے اختتامی حصہ میں میرے ایک دو جملے فاروقی صاحب نے ’’سبقِ اردو‘‘ میں چھاپنے سے پہلے از خود حذف کر دئیے۔
حذف شدہ جملے یہ تھے:
’’انہوں نے خود نئے لکھنے والوں کو اس راہ پر لگائے رکھا جہاں کئی فنکار ادبی خود کشیاں کر گئے۔لیکن جب آپ بہ نفسِ نفیس تخلیقی اظہار پر آئے تونہ صرف جدیدیت سے بالکل الگ ہوتے دکھائی دئیے بلکہ موضوع سے لے کر اسلوب تک ہر سطح پر کلاسیکل بن گئے۔دوسروں کے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔۔۔‘‘۔
جب ’’سبقِ اردو‘‘میں میرا مضمون شائع کیا گیا اور اس میں سے یہ حصہ حذف کر دیا گیا تو یہ احساس ضرور ہوا کہ حذف کرنے سے پہلے مجھ سے بات کر لی جاتی تو اچھا تھا۔تاہم میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری بات درست ہونے کے باوجود اگراس ناول پر مضمون میں شامل نہ ہو تو پھر بھی ناول کا مطالعہمتاثر نہیں ہوتا۔ جب نصرت ظہیر صاحب نے اس مسئلہ پر اعتراض کیا تو ظاہر ہے مجھے اس کا دفاع کرنا تھا سو میں نے کیا۔تاہم بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جملے حذف کر دینے کے باوجود فاروقی صاحب کے من میں کہیں کوئی رنجش سی رہ گئی ہے۔اس کا اظہار بعض صورتوں میں سامنے آتا رہا ۔اگرچہ یہ بہت ہی چھوٹی سطح کی باتیں ہیں۔پھر بھی اب پیش توکرنی ہی پڑیں گی۔ میں نے ان سب کو دیکھا ضرور۔دوسری طرف کی قلبی کیفیات کو سمجھنے کا اندازہ بھی کر لیا لیکن اس کا اظہار کرنابہت ہی چھوٹا سا لگ رہا ہے۔یہ سب کرنے والوں کو ایسا نہیں لگا تو ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ان اقدامات کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔
ایک ویب سائٹ نظر سے گزری
http://urduindia.wordpress.com/2007/09/29/faruqis-urdu-novel-kai-chand-the-sar-e-aasman/
اس میں فاروقی صاحب کے ناول کا انگریزی میں تعارف کرایا گیا تھا۔صاف دکھائی دیتا ہے کہ انگریزی میں لکھنے والا ان کا اپنا بندہ ہے۔ناول کے تعارف کے طور پر جو کچھ لکھا گیا اس کا بیشتر حصہ میرے مضمون سے اخذ کیا گیا تھا لیکن اس میں کہیں میرا حوالہ نہیں دیا گیا۔چنانچہ میں نے فوری طور پر اسی ویب سائٹ پر کومنٹس کے سیکشن میں رومن اردو میں ہی اپنے یہ تاثرات درج کر دئیے۔
’’اس تبصرہ میں مذکورہ ناول پر میرے مضمون کا ایک بڑا حصہ شامل کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ میرا نام مینشن نہیں کیا گیا۔کیا اتفاقاََ ایسا ہوا ہے یا جان بوجھ کر میرا تجزیہ تو شامل کیا گیا ہے مگر نام حذف کر دیا گیا ہے؟ ‘‘۱۵ مئی ۲۰۰۸ء
یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ ناولوں پر اب تک میرے جتنے مضامین چھپ چکے ہیں ان میں عمومی طور پر میرا انداز یہ رہتا ہے کہ میں سب سے پہلے ناول کا خلاصہ یا مختصر کہانی پیش کر دیتا ہوں۔یہی انداز میں نے فاروقی صاحب کے ناول کے سلسلہ میں اختیار کیا۔ان کے ناول کی کہانی بہت زیادہ بکھری ہوئی تھی۔اسے مربوط طور پر پیش کرنا بجائے خود خاصا مشقت طلب کام تھا۔اس ناول پر لکھے گئے مضامین میں سب سے پہلے میرا مضمون شائع ہوا جس میں ناول کا خلاصہ کر دیا گیا تھا۔جب ایک بار کہانی مربوط ہو کر سامنے آجائے تو پھر اس میں کچھ کمی بیشی کرکے دوسرا خلاصہ تیار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔چنانچہ میرے مضمون کی اشاعت کے بعد بعض ایسے مضامین پھر پڑھنے کو ملے جن میں تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ ناول کا خلاصہ درج کیا گیا تھا۔یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ناول کی بکھری ہوئی کہانی کو مربوط کرکے یکجا کرنے کا کام بہر حال سب سے پہلے مجھ سے ہوا تھا۔ میرے مضمون کی اشاعت سے پہلے ناول پر جتنے مضمون چھپ چکے تھے کسی میں بھی ناول کا خلاصہ درج نہیں تھا۔
انگریزی ویب سائٹ پر فاروقی صاحب کے ناول کے اسی تعارف میں ایک جگہ میری طرف سے یہ الفاظ شامل کیے گئے۔
such is his mastery in depicting the sexual encounters and love scenes that if the novel was written in modern Urdu, it would have sold by lakhs, says Haider Qureshi, an eminent poet. As it is a novel about Indo-Islamic culture and Mughals, the finest couplets of Urdu and Persian poetry abound in the book.
اس کا اردو ترجمہ شب خون خبر نامہ شمارہ اگست تا دسمبر ۲۰۰۸ء میں ان الفاظ میں کیا گیا:
’’حیدر قریشی (an eminent poetکا ترجمہ غائب ہے) کا کہنا ہے کہ اس ناول میں جنسی معاملات کو اس قدر ماہرانہ انداز لیکن مرصع زبان میں پیش کیا گیا ہے کہ اگر اسے اکیسویں صدی کی زبان میں لکھا جاتا تو اس کی فروخت لاکھوں تک پہنچتی۔ہند اسلامی تہذیب اور مغل طور طریقوں کی عکاسی کے سبب سے ناول میں فارسی کے شعر بھرے ہوئے ہیں۔‘‘
ناول پر مطبوعہ میرے مضمون میں شامل میرے اصل الفاظ یہ ہیں: ’’جنسی عمل کی منظر کشی میں شمس الرحمن فاروقی کی جزئیات نگاری کی مہارت اپنے کمال پر دکھائی دیتی ہے۔اگر انہوں نے ناول کو آج کے عہد کی اردو میں لکھا ہوتا تو صرف جنسی جزئیات نگاری کے باعث ناول ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا ۔‘‘
ہاتھوں ہاتھ لیا جانا اور لاکھوں تک فروخت ہونا اپنے اپنے حساب کی بات ہے۔
اور یہ جملہ تو میں نے کہیں بھی نہیں لکھا ۔۔۔’’ہند اسلامی تہذیب اور مغل طور طریقوں کی عکاسی کے سبب سے ناول میں فارسی کے شعر بھرے ہوئے ہیں۔‘‘
کہا جا سکتا ہے کہ شب خون خبر نامہ نے تو انگریزی سائٹ کی تحریر کا ترجمہ دیا تھا۔لیکن مجھے اس بات پر اصرار ہے کہ انگریزی میں لکھنے والا بھی ان کا ہی کوئی نیازمند ہے۔ نیزاگر انگریزی میں کچھ غلط لکھا ہوا تھا تو فاروقی صاحب کے لیے اس کی درستی کرنا یا اسے نظر انداز کرنا مشکل نہ تھا۔بہر حال جو میں نے لکھا تھا اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے طویل حصہ میں میرا حوالہ تک نہیں دیا گیا اور جو میں نے نہیں لکھا تھا وہ بلا وجہ مجھ سے منسوب کر دیا گیا۔تاہم اس قسم کی باتوں سے اندازہ ہوتا رہا کہ مجھ پر جن کا کارندہ ہونے کا جھوٹاالزام ہے وہ مجھ سے کس حد تک خوش ہیں۔
یہی صورتِ حال اشعر نجمی صاحب کے ہاں بھی نمایاں ہو رہی تھی۔کہاں یہ کہ وہ’’ جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی‘‘کو اہتمام کے ساتھ چھاپ رہے تھے اور کہاں یہ کہ کسی نے سرقہ اور جعلسازی کے خلاف جدید ادب کا ذکر کردیا تو باقی سارا لکھا چھاپ دیا لیکن جدید ادب کی توصیف والا جملہ حذف کر دیا۔رفیع رضا کے تاثرات فیس بک پر لگے ہوئے تھے جس میں انہوں نے سرقہ کی روایت کے مستحکم ہونے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کے لیے مسلسل جہاد کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔اور اپنے خط کے آخر میں یہ اعتراف کیا:
’’جدید ادب رسالہ جو حیدر قریشی صاحب کی ادارت میں جرمنی سے شائع ہوتا ہے، انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔اس جہاد میں سبقت لے جاچْکا ہے ۔‘‘
اشعر نجمی صاحب نے وہ سارے تاثرات ’’اثبات‘‘ شمارہ نمبر ۵۔۴ میں شائع کیے بس یہ آخری جملے حذف کر دئیے۔میں ان ساری چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو اور ایسی ہی دیگر حرکتوں کو اپنے ان کرم فرماؤں کی محبت میں شمار کرتا ہوں۔
عمران بھنڈر صاحب کے سرقہ اور جعلسازی کے حوالے سے بحث انٹرنیٹ کے کئی فورمز تک پھیلی۔ایک فورم پر ڈاکٹر فریاد آزر اور ارشد خالد نے بڑے مدلل طریقے سے اشعر نجمی اور جمیل الرحمن اور ان کے فیس بُکی دوستوں کی گرفت کی۔اس فورم پرفریاد آزر نے اشعر نجمی کے جواب میں بڑی پھڑکتی ہوئی میل پوسٹ کی۔اس کے ساتھ ہی اس فورم کی انتظامیہ نے بحث کو بند کرنے کا اعلان بھی کر دیالیکن پھراپنے ہی اعلان کو رد کرکے اور اشعر نجمی کو ترجیح دے کرایک بار پھر اشعر نجمی کے تاثرات شائع کر دئیے گئے۔پہلے ڈاکٹر فریاد آزر کے تاثرات پیش ہیں۔
’’اشعر نجمی صاحب کی محبت ہے کہ بار بار مجھے ایک بات یاد دلا رہے ہیں اور اور بار بار جعلساز اور سارق عمران بھنڈر کے بے جان دفاع کے لیے جان ہلکان کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں بار بار ان کا ایک ہی سوال ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند کے بارے میں یہ اعتراف کرو۔بھائی! جس اعتراف پر آپ اتنا زور دے رہے ہیں،آپ اس میں کوئی ذاتی دشمنی نبھا رہے ہیں؟اگر آپ کو واقعی سرقہ اور جعلسازی سے دلچسپی ہے تومولانا حالی،شبلی نعمانی،علامہ نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محی الدین زور،حامداللہ افسرسے لے کر سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر سلیم اختر،ملک حسن اختراور وقار عظیم تک نقادوں کی ایک جید کھیپ ہے جن پر کسی نہ کسی رنگ میں سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کا الزام لگا ہوا ہے۔آپ نے باقی سب کے معاملے میں بھی اتنی ہی پھرتی اور دلچسپی دکھائی جتنی اب ڈاکٹر نارنگ کے بارے میں دکھا رہے ہیں؟کیا ان سب کے بارے میں جاننے کے بعد آپ ان کے حوالے سے بھی اتنی ہی ایمانداری کے ساتھ اور اتنی ہی تیزی کے ساتھ سرقہ یا ترجمہ بغیر حوالہ کا مسئلہ اُٹھائیں گے؟۔ان سب سے نمٹ لیں پھر نارنگ صاحب کے حصہ میں جو ملامت آئی اسے بھی اسی تناظر میں دیکھ لیجیے گا۔ ڈاکٹر فریاد آزر‘‘ 2011/8/29 fariyad azer
اور اب اس مدلل بیان کا انتہائی کمزور اور نہایت بودا جواب جو اشعر نجمی صاحب کو خصوصی سہولت دے کر شائع کیا گیا،اس کے چند اہم حصے بھی دیکھ لیں۔
’’فریاد آزر صاحب!میں خدا حافظ بول کر دوبارہ اس لیے ’’بزمِ قلم‘‘میں حاضر ہو گیا ہوں،کیونکہ اس کے بعد آپ کا جو جواب آیااس کا متن اور اسلوب دونوں چغلی کھا رہے تھے کہ قلم آپ کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ میں منتقل ہو چکا ہے۔ممکن ہے کہ اب یا تو آپ کے’’ استادِ محترم‘‘ نے خود کمان سنبھال لی ہو یا پھر نارنگ صاحب کا کوئی تنخواہ بردار حق نمک ادا کر رہا ہو۔ورنہ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ اتنے سدھے ہوئے فقرے تو آپ کے فرشتے بھی نہیں لکھ سکتے۔۔۔۔۔۔ایک ہی سانس میں آپ مولانا حالی،شبلی نعمانی،علامہ نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محی الدین زور،حامداللہ افسر، سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر سلیم اختر،ملک حسن اختراور وقار عظیم کا نام گنواتے ہیں۔مجھے علم نہیں کہ ان ناموں کو زبان پر لانے سے پہلے آپ نے وضو کیا تھا یا نہیں؟۔۔۔۔۔نارنگ صاحب کے پاس کوئی ایسا مرد ہی نہیں بچا جو خم ٹھونک کر سامنے آئے اور اپنی بات اپنی زبان سے کہے۔سب کے سب برقعہ پہنے ادھر اُدھر آسیب بن کر گھوم رہے ہیں‘‘اشعر نجمی 8/30/11
ڈاکٹر فریاد آزر کی دلیل اور اشعر نجمی کے وضو کرنے والے فرمان میں کتنی ادبی سچائی اور طاقت ہے اس کا فیصلہ اہلِ ادب اور خاص طورپر اہلِ تحقیق خود ہی کرتے رہیں گے۔تب ارشد خالد نے ٹیلی فون پربڑ ا عمدہ جملہ کہا کہ اگر فاروقی صاحب پر ایسا کوئی الزام لگ گیا توپھر اسے تو وضو کرکے نہیں بلکہ غسل کرکے لکھنا پڑے گا۔جس قسم کی بحث انٹرنیٹ پر چل پڑی تھی،اس میں خود فاروقی صاحب کے سارے کارندے پورے تال میل کے ساتھ ایک دوسرے سے رابطہ میں تھے۔اور مختلف ناموں سے لکھ بھی رہے تھے، لکھوا بھی رہے تھے۔جب بحث مناظرانہ صورت اختیار کر رہی ہو تو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔اصل چیز تو وہ دلائل ہوتے ہیں جو فریقین کی جانب سے پیش کئے جا رہے ہوتے ہیں۔ڈاکٹر فریاد آزر نے اگر کسی سے کوئی صلاح مشورہ کیا بھی ہو تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔اصل چیز ان کے دلائل ہیں اور ان کے جواب میں اشعر نجمی صاحب نے جو لکھا ہے،اسی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کون اصولی بات کر رہا ہے اور کون جان چھڑانے کے لیے الزام تراشیوں کا سہارا لے رہا ہے۔اشعر نجمی صاحب کی الزام تراشی کے جواب میں یہاں ادبی طور پر بھی اور انٹرنیٹ پر موجود برقعہ پوشوں کے حوالے سے بھی دو اہم مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
میں نے اپنے مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ میں واضح کیا تھا کہ اقبال نوید اور سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے عمران شاہد بھنڈر خود لکھتے ہیں۔اس الزام کے بعد ظاہر ہے ان لوگوں کو اس کی مدلل تردید کرنے کی جرات نہیں تھی،اس لیے ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ دوسروں پر ایسا الزام لگانا شروع کردو۔ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لیے بقول شمس الرحمن فاروقی صاحب ویسے بھی کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔بس افواہ اڑا دیجیے اور اطمینان کر لیں کہ آپ پر لگا الزام دھل گیا۔
۲۷؍اگست ۲۰۱۱ء کو اسی فورم پر حسین چوہان نام کا ایک برقعہ پوش وارد ہوا۔اس کی غلیظ پوسٹ عمران شاہد کی مخصوص بد زبانی کو ظاہر کر رہی تھی۔اس پر ارشد خالد نے فوراََ نوٹس لیتے ہوئے وہیں پر یہ لکھا:
’’انٹرنیٹ پر حسین چوہان کے نام سے جو میل جاری کی گئی ہے یہ سو فی صد عمران شاہد بھنڈر خود ہے۔اس بارے میں تحقیق کرا لی جائے۔ننانوے فی صد نہیں پورے سو فیصد یہ حسین چوہان، عمران شاہد بھنڈر خود ہے۔اب جبکہ عمران شاہد کے انگلینڈ کے پرانے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں جو اپنا نام استعمال کرانے پر راضی تھے تو عمران نے فرضی ای میل آئی ڈیز بنانے شروع کر دئیے ہیں۔اس پر ایک نیم پاگل کا لطیفہ یاد آتا ہے۔جس نے ایک دوکان پر جاکر پوچھا کہ یہ فرج کتنے کا ہے؟ تو دوکاندار نے جواب دیا کہ یہ تمہیں نہیں بیچنا۔وہ مختلف بھیس بدل بدل کر دوکان پر جاتا رہا اور ہر بار پوچھتا کہ یہ فرج کتنے کا ہے اور ہر بار بھیس بدلا ہونے کے باوجود دوکاندار کہتا کہ یہ تمہیں نہیں بیچنا۔آخر اس نے پوچھا کہ تم کیسے پہچان لیتے ہو کہ بھیس بدل کر میں ہی آیا ہوں۔اس پر دوکاندار نے کہا کہ جسے تم فرج کہہ رہے ہو وہ واشنگ مشین ہے۔اس سے زیادہ کیا لکھوں؟ ارشد خالد‘‘ 8/27/11
جیسے عمران بھنڈر صاحب کا پردہ فاش ہوا ان لوگوں نے ارشد خالد کے چبائے ہوئے نوالے آزمانے کا رویہ اپنا لیا۔اب انہیں ارشد خالد میں حیدر قریشی دکھائی دینے لگا،ڈاکٹر فریاد آزر میں نارنگ صاحب دکھائی دینے لگے۔
اس فورم پر علمی طور پر کھلی شکست کھانے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے اپنا آخری حربہ آزما لیا۔ان کا اس فورم میں خاصا نہیں، خاصے سے زیادہ عمل دخل ہے،چنانچہ انہوں نے ڈاکٹر فریاد آزر کے دلائل کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے ان کی فورم سے ممبر شپ ہی ختم کرا دی۔ (چند روز کے بعد وہ ممبر شپ جزوی طور پر بحال کی گئی،اور اشعر نجمی کے جواب میں لکھی گئی جوابی میلز کو شائع نہیں کیا گیا)اپنے فورم پر جمیل الرحمن صاحب نے بھی سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد کا فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ اور دوسرے فورم پر اشعر نجمی صاحب نے بھی بہ انداز دگریہی کر دکھایا۔لیکن دونوں صاحبان کے یہ اقدام کس اعتراف کی نشان دہی کرتے ہیں؟
بعض بہت ہی کمزور اور بے تکے قسم کے اعتراضات بھی کسی نہ کسی رنگ میں سامنے آئے ہیں ۔ان میں سے ہر ایک کا جواب دینا مناسب نہیں۔ہاں کسی ادبی رسالہ میں ایسے اعتراضات شائع ہوئے تو پھر ان کا پورا جواب دیا جائے گا۔یہاں صرف اشعر نجمی صاحب اور عمران بھنڈر صاحب کے پروپیگنڈہ نما دو نہایت نا معقول اعتراضات کا جواب دے دیتا ہوں۔
جب ارشد خالد صاحب نے شمس الرحمن فاروقی صاحب، محمدعمر میمن صاحب اور سی ایم نعیم صاحب کے تاثرات انٹرنیٹ فورمز پر پیش کیے تو اشعر نجمی صاحب نے حقیقت جانتے ہوئے بھی شرارت کے طور پر کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی۔اور سوال کیا کہ یہ خطوط تو حیدر قریشی کے نام تھے،آپ کو کیسے مل گئے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ردِ عمل‘‘ کے عنوان سے میں بہت سارے احباب کے تاثرات ریلیز کر چکا ہوں جو خود اشعر نجمی صاحب کو بھی مل چکے تھے،جس کا ثبوت میرے پاس محفوظ ہے۔دوسری بات یہ کہ ارشد خالد صاحب اپنے عکاس میں میرا مضمون اور سارا ردِ عمل ایک ساتھ ستمبر۲۰۱۱ء کے شمارہ میں شائع کر رہے تھے۔عام احباب کو ریلیز کیے جانے کی بنیاد پر بھی اور اپنے رسالہ میں چھاپنے کی بنیاد پر بھی ان کی جانب سے ایسے خطوط کی اشاعت میں اچنبھے کی بات کونسی تھی؟ہر چند ارشد خالد صاحب نے خود بھی یہ وضاحت دو فورمز پر کر دی ہوئی ہے تاہم میں یہاں اس لیے اس کا ذکر کرہا ہوں تاکہ اس حلقہ کے منفی پروپیگنڈہ کی نوعیت اور حقیقت سامنے آسکے۔
دوسرا فرمان عمران بھنڈر صاحب کا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے خطیر رقم دے کر گوجرانوالہ کے ایک روزنامہ افکارِ جہاں میں اپنا مضمون شائع کرایا ہے۔قطع نظر اس سے کہ میرے پاس ادارہ افکارِ جہاں گوجرانوالہ کے ساتھ مراسلت کی ساری ای میلز محفوظ ہیں اور موقع محل کی مناسبت سے انہیں کبھی شائع بھی کیا جا سکتا ہے۔تاہم یہ واضح کر دوں کہ گوجرانوالہ کے افکار جہاں اور کولکاتا کے روزنامہ عکاس، دونوں اخبارات کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔دونوں طرف یہ مضمون ادبی محبت کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔گوجرانوالہ کے اخبار میں مضمون چھپوانے کی ایک خاص وجہ بھی ہے۔عمران بھنڈر صاحب نے عام طور پر خود کو ایک سیاسی گھرانے کا فرد ظاہر کرکے یہ تاثربنایا ہوا ہے کہ گوجرانوالہ میں ان کا بہت زیادہ اثررسوخ ہے،وہ جو چاہیں وہاں کر سکتے ہیں۔ افکار جہاں میں مضمون چھپوا کر میں نے ایک متکبر کا تکبر توڑا ہے۔ڈاکٹرظہور احمد اعوان صاحب مرحوم نے میرے بارے میں ایک بار لکھا تھا کہ حیدر قریشی شیر کو اس کی کچھار میں جا کر للکارتا ہے۔اگر وہ زندہ ہوتے تو شاید اب کچھ اس قسم کی بات لکھتے کہ حیدر قریشی اگر شیر کو اس کی کچھار میں جا کر للکارتا ہے تو گیدڑ کی بھی اس کے اصل ٹھکانے پر جا کر چھترول کرتا ہے۔مجھے احساس ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے لیکن عمران بھنڈر کے مجموعی کردار کے تناظر میں ابھی بھی کم ہے۔
اب نام نہاد نوجوان فلسفی کا ذکرِ خیرشروع ہوا ہے توان کی بھی چند باتیں ہو جائیں۔موصوف نے براہِ راست میرے اہم سوالات کے جواب سے مکمل گریز کیاہے۔ڈاکٹر وزیر آغا ،ڈاکٹر انور سدیداور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے خلاف بد زبانی کرکے یہ گمان کر لیا کہ میرے سوالات اور پیش کردہ حقائق سے نجات مل گئی۔اشعر نجمی اور جمیل الرحمن کی ملی بھگت سے بلا ئے ہوئے فیس بُکی ساتھیوں نے اس قسم کے اعتراضات کو اچھالا کہ اگر بھنڈر صاحب نے پی ایچ ڈی نہیں کی تو کیا ہوا۔اور اگر وہ بے روزگار ہیں تو کیا ہوا۔یہ کوئی اعتراض ہیں۔اگر واقعی صرف ایسی ہی بات ہوتی کہ عمران بھنڈر صاحب پر محض یہ اعتراض کیا جاتا کہ وہ پی ایچ ڈی کیوں نہیں ہیں اور یہ کہ وہ کہیں شعبہ تعلیم میں استاد کیوں نہیں ہیں تویقیناََ یہ بے جا اعتراض ہوتے۔وہ صرف گریجوایٹ بھی ہوتے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا،وہ شعبہ تعلیم کی بجائے کسی اور شعبہ میں ملازمت کرتے،یا ویسے ہی بے روزگار ہوتے تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا۔اعتراض کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ۲۰۰۷ء سے پوری اردو دنیا کو دھوکا دے رکھا ہے کہ وہ ’’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘‘کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔جبکہ انہوں نے پی ایچ ڈی کے لیے اپنی رجسٹریشن ہی نہیں کرا ئی۔تو جب ایک کام شروع ہی نہیں کیا تو اس کا جعلی تاثر کیوں قائم کیا۔مسئلہ ڈگری لینے یا نہ لینے کا نہیں ،مسئلہ جعل سازی کا ہے۔وہ اس معاملہ میں جعل سازی کے مرتکب ہوئے ہیں۔یہی معاملہ شعبہ تعلیم سے وابستگی کے بیان میں ہے۔دونوں باتیں جھوٹ ہیں اور اپنا جعلی تاثر قائم کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں۔
عمران شاہد بھنڈر نے خود اور مختلف آئی ڈیز کے ذریعے بھی جو جواب دینے کی کوشش کی ہے ،وہ محض گالی گلوچ ہے،اس کا دلائل اور شواہد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں نے خلاصۂ کلام میں چھ اہم نکات ابھارے تھے لیکن عمران شاہد بھنڈر کی بد حواسی نے ایک ساتویں نکتہ کو بھی اہمیت دے دی ہے۔جب عمران شاہد بھنڈر نے حسین چوہان کے نام سے بد زبانی شروع کی تواس میں میری گھریلو زندگی کے بارے میں جھوٹ کے پلندے لکھنا شروع کیے ۔میری ازدواجی زندگی پر جب بھی کسی ایسے کرم فرما نے کوئی غلط بات کی ہے، بعد میں اتہ پتہ کرنے پر وہ خود گھریلو زندگی کی مسرتوں سے محروم ایک لڑکھڑاتا ہوا انسان ظاہر ہوا۔میں کسی کی ازدواجی زندگی کی ناکامی پر خوش نہیں ہوتا۔عمران بھنڈر کی ازدواجی زندگی بھی ایسی ہی ناکام ہے۔اسی لیے انہوں نے اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے اس قسم کی باتیں کی ہیں۔تاہم میں بھنڈر صاحب سمیت ایسی باتیں کرنے والے سارے کرم فرماؤں کی باتوں پر غصہ نہیں کروں گا۔مجھے حقیقتاََ ان سب سے ہمدردی ہے۔اور دعا کرتا ہوں کہ ان کی زندگیوں میں میری ازدواجی زندگی جیسی آدھی خوشیاں ہی آجائیں تو شاید اس معاملہ میں ان کی ساری فرسٹریشن ختم ہو جائے ۔
بھنڈر صاحب نے ارشد خالد کے بارے میں ’’بنک کا چپڑاسی‘‘ جیسے اہانت آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس سے ارشد خالد کا کچھ نہیں بگڑا البتہ عمران شاہد بھنڈر کا نچلے طبقے سے ہمدردی رکھنے والامارکسزم ضرور ظاہر ہو گیا ہے۔میں مارکسسٹ نہیں ہوں لیکن یہاں اس بات کا اظہار فخریہ کرنا چاہوں گاکہ جب میں خانپور کی سڑکوں پرہوائی چپل پہن کر گھوما کرتا تھا،ارشد خالداُس زمانے میں موٹر سائیکل رکھتا تھا۔تب سے ہماری دوستی قائم ہے۔ہر دوسرے موڑ پر مفادات کے چکر میں چکر چلانے والے لوگ زندگی میں ایک بھی ایسا دوست نہیں بنا پاتے جسے تیس یا چالیس سال کے بعد بتا سکیں کہ ہم اتنے عرصہ سے دوست ہیں اور وہ دوستی آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ انگلینڈ کے سرکاری کاغذات میں عمران بھنڈر صاحب کی جتنی انکم درج ہے،ارشد خالد کی پاکستان میں رہتے ہوئے سرکاری کاغذات میں اس سے زیادہ انکم ہے۔عمران بھنڈر صاحب کتنے قابلِ رحم ہیں کہ ان کے دامن میں نہ کوئی قابلِ فخر فیملی رشتہ ہے اور نہ ہی کوئی طویل دورانیہ کا دوست۔
بات ہو رہی تھی عمران بھنڈر صاحب کے بارے میں ساتویں اہم نکتے کی۔حسین چوہان کے فرضی نام سے عمران بھنڈر صاحب کی بد زبانی عروج پر تھی ،وہ تہذیب اور شائستگی سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔تب ارشد خالد نے عمران بھنڈر کے لہجے میں انہیں جواب دیتے ہوئے سلمان شاہد بھنڈر کے نام کے راز سے ہلکا سا پردہ سرکایا۔پہلے ارشد خالد کا عمران بھنڈر اسٹائل میں(جیسا منہ ویسی چپیڑکے مطابق)
جواب پڑھ لیں:
’’عمران شاہد بھنڈر عرف حسین چوہان !تم کہاں سے گر کر ذلت کے کس مقام پر پڑے ہو پھر بھی تمہیں احساس نہیں ہو رہا۔جب تمہاری جعلسازی کے راز کھل گئے تو اب دوسروں پر الزام تراشی کر رہے ہو۔تمہارا سرقہ اور پی ایچ ڈی کی جعل سازی،شعبہ تعلیم سے وابستگی کا ڈرامہ ،سلمان شاہد کا فریب سب کھل گیا ہے تو اب ہم پر ہی اپنے کرتوت کے الزام لگا رہے ہو۔تمہارے جعلی آئی ڈیز کے بارے میں کیسے پتہ چل جاتا ہے ،اس کا اقبال نوید سے پوچھو۔اقبال نوید سے یہ بھی پوچھو کہ یہ خبر کیسے نکل گئی کہ سلمان شاہد بھنڈر تمہارا چھوٹا بھائی نہیں بلکہ بیٹا ہے۔لیکن تم تو انگلینڈ میں خود کو غیر شادی شدہ کہتے ہو تو یہ بیٹے کا کیا ماجرا ہے۔اس سے زیادہ تمہیں کیا جواب دوں؟تم ذلت کی جس گہرائی میں گر چکے ہو وہاں سے تمہیں اب کوئی بھی نہیں نکال سکتا۔ارشد خالد‘‘ 8/29/11
ساتواں نکتہ یہ نکلا کہ سلمان شاہد ان کا بیٹا ہے لیکن وہ خود کو انگلینڈ میں غیر شادی شدہ بتاتے ہیں۔شادی کے بغیر بیٹا۔۔۔کہاں کیا چکر ہے؟چنانچہ جیسے ہی یہ بات سامنے آئی عمران بھنڈر عرف حسین چوہان کی آگ اگلتی زبان یک دم صلح جو ہو گئی۔دوسروں کے گھروں کے بارے میں نہایت بے حیائی کے ساتھ یک سر جھوٹ لکھنے والے عمران بھنڈر صاحب کو جیسے ہی اپنے کسی خفیہ سچ کا سامنا کرنا پڑا تو ایک دم شائستگی کا ڈرامہ شروع کر دیا۔اس کے جواب میں موصوف نے یہ پوسٹ شائع کی۔
’’محترم خواتین وحضرات
آئیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا بند کریں۔اور ایک صحت مند علمی و ادبی مکالمے کی جانب بڑھیں۔میں نے برطانیہ کے ایک ریڈیو اسٹیشن پر جدلیات اور مابعد جدیدیت کے تعلق کے بارے میں ایک انٹرنیشنل مذاکرے کا اہتمام کیا ہے۔اس کے تمام تر اخراجات میں خود ادا کروں گا۔میں نے سوچا ہے کہ ایک ہی پلیٹ فارم پر عمران شاہد بھنڈر،گوپی چند نارنگ،حیدر قریشی اور ناصر عباس نیرکو اکٹھا کیا جائے۔اور مابعد جدید تھیوری کے بارے میں ریڈیو پرتجزیاتی مباحثہ کرایا جائے۔یہ مذاکرہ لائیو ہوگا۔اس میں یہ سب احباب حصہ لیں۔اس مکالمے کو پوری دنیا میں ریڈیو پر سنا جا سکے گا۔احباب خود فیصلہ کریں گے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔کس کے پاس کتنا علم ہے۔دوسروں کی کتاب کو سامنے رکھ کر کتاب لکھنا آسان ہے۔انہی موضوعات پر لائیو مباحث میں سب کی علمیت کا پول کھل جائے گا۔میری ان تمام احباب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی رضامندی کااظہار کریں تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔مذاکرے کا موضوع ہوگا’’مابعد کانٹین ازم جنم لینے والی اثباتی جدلیات،منفی جدلیات اور اس کا مابعد جدیدیت سے تعلق‘‘۔حیدر قریشی کے لیے اپنی علمیت کو ثابت کرنے کا یہ بہترین موقعہ ہے۔مجھے امید ہے کہ وہ اسے ضائع نہیں کرے گا۔آپ کا حسین‘‘ 8/29/11
اس سے ان کی کمزوری کھل کر سامنے آ گئی،سو اب یہ جاننا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ عمران بھنڈر صاحب جب اپنی حمایت اور اپنے مخالفین کی سرکوبی کے لیے اپنے کمسن بیٹے سلمان شاہد بھنڈر کا نام استعمال کرتے رہے ہیں،خود کو غیر شادی شدہ بھی جتاتے رہے ہیں ،تو غیر شادی شدہ باپ ہونے میں کیا بھید ہے؟۔اگر یہ سوال عمران بھنڈر کو بد تہذیبی ترک کرکے قلمی طور پر مہذب بنا سکتا ہے تو اس سوال کو مسلسل اٹھاتے رہنا چاہیے۔سو میں خلاصۂ کلام کو دہراتے ہوئے اب چھ نکات کی بجائے سات نکات کے طور پر پیش کروں گا۔کسی بد تہذیب اور بے لگا م کوتہذیب سکھانے اور لگام دینے کے لیے یہ نکتہ ابھارتے رہنا ضروری ہو گیا ہے۔سو چھ نکاتی خلاصۂ کلام کو ساتویں نکتہ کے اضافہ کے ساتھ یہاں درج کر رہاہوں۔ان سب کا جواب عمران بھنڈر صاحب پر ابھی تک قرض ہے۔اور کسی تھرڈ کلاس نوعیت کی الزام تراشی اور گالی گلوچ کے ذریعے ان سے نجات ممکن نہیں ہے۔ترتیب وار جواب دینے کی صورت میں ہی ان سے نجات ملے گی ورنہ یہ ساتوں نکات ان کی پیشانی پر لکھے رہیں گے اور چمکتے رہیں گے۔
خلاصۂ کلام:
۱۔عمران شاہد بھنڈر نے2007ء میں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوع Postmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ء سے لے کر جون 2011ء تک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔
۲۔خود کو شعبۂ تعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂ تعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂ تعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟
۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود’’ نوجوان فلسفی‘‘ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ’’نابغہ‘‘ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔
۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔
۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔
۶۔عمران شاہد بھنڈر جو سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے خود ہی اپنی تعریف میں اوراپنے مخالفین کی مذمت میں مضامین لکھتے رہے ہیں،اس بارے میں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر ان کا کم سن بیٹا ہے۔بچے کی قانونی حیثیت کیا ہے،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن عمران بھنڈر ابھی تک خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتے رہے ہیں،تو دوسروں پر غلیظ اور جھوٹے حملے کرنے سے پہلے غیر شادی شدہ باپ کی حیثیت سے انہیں اپنی اخلاقی حیثیت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔
۷۔’’نوجوان فلسفی‘‘ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔
ادبی در اندازعمران بھنڈرصاحب کے بارے میں بعض دوستوں نے دلچسپ پیرائے میں اس حقیقت کو ابھارا ہے کہ موصوف اپنے نصابی مطالعہ سے باہر آئیں تو ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔اگر ان پر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ آپ نے کانٹ،ہیگل،مارکس اور دریدا کے ذکر کے بغیر کچھ لکھنا ہے تو موصوف ایک سطر بھی شاید نہیں لکھ سکیں گے۔اگر کبھی کوئی دوست اور عمران بھنڈر کے خیر خواہ انہیں اس راہ پر لے آئے کہ مذکورہ فلسفیوں اور دانشوروں کا ذکر کیے بغیر یہ کچھ لکھنے کے قابل ہو جائیں تو اسے بھی اچھا آغاز سمجھا جا سکتا ہے۔اردو ادب کا اپنی پسند کا ایسا انتخاب کرنے کی عمران بھنڈر کو آزادی ہے جسے وہ اپنی دانست میں اعلیٰ اردو ادب میں شمار کر سکیں۔پھر ان منتخب فن پاروں پر وہ مضامین لکھنا شروع کریں اور کانٹ سے دریدا تک اپنے نصابی مطالعہ والے مفکروں کے حوالوں کے بغیر مضامین لکھنا شروع کریں تو اردو دنیا پر پوری طرح کھل جائے گا کہ عمران بھنڈر صاحب کس پائے کے نقاد ہیں۔یا یہ کہ نقاد ہیں بھی یا نہیں۔لیکن مجھے معلوم ہے عمران بھنڈر اس سنجیدہ کام سے فرار کے لیے سو بہانے تراش لیں گے کیونکہ یہ ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں!
بات ہو رہی تھی عمران بھنڈر عرف حسین چوہان کے صلح جو بیان اور مکالمہ کی دعوت کی۔ موصوف نے جس طرح صحت مند علمی مکالمہ کی ریڈیائی دعوت دی ہے،اس میں بھی وہی ان کے اندر گوجرانوالہ کے دھوتی پہنے ہوئے پہلوان والا انداز شامل ہے۔تہذیب اور تمیز کے ساتھ لکھ سکیں تو ریڈیائی مکالمہ(ڈرامہ)کے مقابلہ میں قلمی مکالمہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔مقصد علمیت بگھارنا نہیں ہوتابلکہ موضوع کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لا کر ان پر مزید غور وفکر کرنا ہوتا ہے۔عمران بھنڈر جس انداز میں اپنی علمیت بگھار رہے ہیں اس سے مجھے یونان کے ایک دانشور کی بات یاد آگئی۔عمران بھنڈر،حسین چوہان،سلمان شاہد اور اقبال نوید(اصل میں چاروں ایک ہیں)جیسے لوگ مل کر اس دانشور کے پاس گئے اور اس سے کچھ پوچھنے اور ڈسکس کرنے لگے۔اُس بھلے آدمی کو ان چاروں کی اصلیت اور علم کا اندازہ تھا،اس نے کہا کہ بھائی مجھے تو کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔اس پر’’ اِن چاروں‘‘ جیسے لوگوں نے طنزاََ مسکراتے ہوئے کہا جب ہمیں بھی معلوم نہیں اور تمہیں بھی معلوم نہیں تو ہم میں اور تم میں کیا فرق ہوا؟
اس پر اس دانشور نے متانت کے ساتھ جواب دیا:فرق یہ ہے کہ مجھے اس کا ادراک ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا،جبکہ تم لوگوں کو اس کا ادراک بھی نہیں ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے۔
تو عمران بھنڈر صاحب!جس دن آپ کو یہ ادراک ہو گیا کہ آپ واقعتاََ زندگی ،فلسفہ اورادب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس دن آپ کے علمی اور ادبی سفر کا آغاز ہو جائے گا۔اب دیکھتے ہیں کہ آپ کب تک اس سفر کا آغاز کرپاتے ہیں۔
اس مہذب چیلنج میں’’مابعد کانٹین ازم جنم لینے والی اثباتی جدلیات،منفی جدلیات اور اس کا مابعد جدیدیت سے تعلق‘‘کا موضوع حسین چوہان نے از خود منتخب کیا ہے۔اس موضوع سے ہی میری اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہو گئی کہ عمران بھنڈر ابھی تک اپنے ایم اے کے نصابی کنویں میں ہی موٹر سائیکل چلا رہے ہیں۔وہی کانٹ،اس کے بعدجدلیات کے حوالے سے خود بخود ہیگل آئے گا،پھر کارل مارکس،اور مارکس کے بعد دریدا ۔۔۔اور پھر اردو والوں کے بارے میں وہی باتیں جو گزشتہ مضمون میں پہلے بتاچکا ہوں۔اس کے باوجود اگر وہ ’’تمام تر اخراجات‘‘میں مدعو کردہ چاروں احباب کے لیے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں تو ہم ان کی زیارت کی خاطر ہی سہی ضرور آئیں گے۔اچھا ہوگا کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب اور اشعر نجمی صاحب کو بھی مدعو کر لیں۔سب مل کرآپ کا ریڈیو اسٹیشن ہی دیکھ لیں گے۔
عمران بھنڈر صاحب کو فیس بک اور انٹرنیٹ کی دنیا سے ہٹ کر اعلیٰ علمی و ادبی شخصیات کس انداز سے دیکھ رہی ہیں ،وہ بیشتر ردِ عمل الگ سے چھپ گیا ہے(مزید موصولہ ردِ عمل بھی چھپتا رہے گا) تاہم اس کی جھلک کے طور پر یہاں دو اہم ادبی شخصیات کے تاثرات تبرک کے طور پر شامل کر رہا ہوں۔عمران بھنڈر اپنے آپ کو اس آئنہ میں دیکھیں اور اپنی اصل شناخت کو سمجھیں۔
’’مجھے ۔۔۔ بھنڈر صاحب کا وہ مضمون پڑھنے کااتفاق بھی ہوا ہے جو انھوں نے حیدرقریشی صاحب کی حقیقت بیانی سے برانگیختہ ہو کر لکھا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں ہر شخص’’ جھوٹ ‘‘کو لے اڑتا ہے۔ اور سچ سننے سے گریز کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ’’ شاہ دولہ کا چوہا‘‘ بھی سر پر تاج زر نگار پہنائے جانے پر فخر کرتا ہے۔ اور اپنی حقیقت کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔ حیدر قریشی صاحب نے ایسے ہی لوگوں کے خلاف تیغ برّاں ہونے کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thank you for sending this "ne'mat-e ghair mutaraqqiba." I read the whole article right away and felt immense pity for the man. Much as I admire your zeal in exposing such impostors, I also feel that your time is far too precious to be wasted on such non-entities. When the controversy was hot, I frequently thought of joining the fray and throw in my two-cents worth, but something prevented me. In retrospect I feel I rightly saved myself from a wasteful undertaking. But I also think that such impostors need to be exposed and cut down to their size. Somebody has to do it, even if it is wasteful, even if the culprit is a non-entity, and you are doing it. We must all be grateful to you:
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
But I cannot call you a "natavan."So keep on with the good work . Warmly, m u memon
محمد عمر میمن۔(امریکہ)
شمس الرحمن فاروقی صاحب کے نادان دوستوں نے اس معاملہ میں اتنی بد حواسی کے ساتھ ٹانگ کیوں اڑائی کہ فاروقی صاحب کے اس خدشہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہونے دی جس کا ذکر شروع میں کر آیا ہوں۔اس کی بنیادی وجہ سرقہ یا جعلسازی کے خلاف صحت مندرویہ نہیں بلکہ صرف اس گروپ کی نارنگ دشمنی ہے۔ماتم کرنے والے دوستوں کا زیادہ شور اس بات پر ہے کہ عمران شاہد بھنڈر صاحب کی اصلیت ظاہر کرکے اس سارے کام کو غارت کر دیا گیا ہے جو ان کے مضامین کی صورت میں نارنگ صاحب کے خلاف یکجا ہوا تھا۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب ہوں یا شمس الرحمن فاروقی صاحب،زبیر رضوی صاحب ہوں یا علی جاوید صاحب۔۔۔ان سب کی ہندوستانی فضا میں باہمی چپقلش ان کے ذاتی یا مقامی نوعیت کے نیم مفاداتی اور نیم ادبی معاملات ہیں۔مجھے نہ ان میں کوئی دخل دینا ہے اور نہ مجھے ان معاملات میں دلچسپی ہے۔یہ کئی برسوں سے چلتی آرہی مناقشت ہے،جس سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں۔جب میرا نارنگ صاحب کے نادان دوستوں کے ساتھ معرکہ چل رہا تھا اور ان مذکورہ بالا احباب میں سے بعض لوگ میرا حوصلہ بڑھا رہے تھے تو مجھے اندازہ تھا کہ ان لوگوں کو سرقہ یا جعل سازی کے موضوع سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے بلکہ انہیں صرف اپنی نارنگ دشمنی سے غرض ہے۔اس کے باوجود میرے لیے ان کی حوصلہ افزائی بہر حال کچھ نہ کچھ تقویت کا موجب بنی۔تاہم میرے پیش نظر تب بھی بنیادی اہمیت سرقہ اور جعل سازی کے موضوع کو حاصل تھی اور اب بھی میری نظر میں شخصیات کا تقدس کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور اس کے لیے کسی کے فائدہ اور نقصان کو میں نے کبھی مطمح نظر نہیں بنایا۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب پر ترجمہ بلا حوالہ کا جو الزام ہے اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔تاہم اب اگرمولانا حالی،شبلی نعمانی،علامہ نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محی الدین زور،حامداللہ افسر، سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر سلیم اختر،ملک حسن اختراور وقار عظیم جیسے معتبر نام بھی ترجمہ بلا حوالہ کے سلسلہ میں سامنے آگئے ہیں اور عمران بھنڈر کی جعلسازیاں اور سرقہ بھی سامنے آگیا ہے تو یقیناََ نارنگ صاحب پر لگے الزام کو بھی اس مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے اور دوستی و دشمنی کی سطح سے بلند ہو کر دیکھنا چاہیے۔اگر بیس پچیس لوگوں نے ملتا جلتا کام کیا ہے تو سب کے ساتھ ایک اصول کے تحت سلوک کیا جاناچاہیے۔مذکورہ بالا جید ناموں کے سامنے آنے کے بعد اب میرا موقف بالکل سیدھا سادہ سا ہے۔جن لوگوں نے اردو ادب میں کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہے،ان کے مجموعی کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کسی پر ترجمہ بلا حوالہ کا الزام ہے تو اسے کسی تعصب اور ترجیح کے بغیر پرکھنا چاہیے۔پھر اگر یہ کمزوری ثابت ہو جاتی ہے تب بھی اس کی دوسری خدمات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔کمزوری کو ظاہر کیا جانا چاہیے لیکن دوسری خدمات کاانکار نہیں کیا جانا چاہیے۔مولانا حالی سے لے کر آج کے ادیبوں تک یہ رویہ ہر ایک کے لیے یکساں طور پر اختیار کیا جانا چاہیے۔یہ نہیں کہ کسی کا نام لینے کے لیے وضو کی شرط رکھ دینا اور کسی پر ذاتی رنجشوں اور کدورتوں کی گندگی اچھالتے جانا،یہ کوئی علمی اور تحقیقی رویہ نہیں ہے۔
میں نے بھنڈر صاحب کے بارے میں اپنے اولین مضمون کے سلسلہ میں بعض اہم دوستوں کی رائے لی تھی۔سی ایم نعیم صاحب نے اپنی ای میل میں بڑی صاف گوئی سے بھنڈر کے سلسلہ میں لکھا تھا کہ: ’’آپ نے ان کے مضامین چھاپے تھے ،اس لیے یہ فرض بھی آپ پر عائد ہوتا تھا۔آپ کی دیانت داری کا یہی تقاضہ تھا۔ نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا ناخوشی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘
میں سی ایم نعیم صاحب کے موقف کو اصولی موقف سمجھتا ہوں اور اسی کے مطابق میرا پہلا مضمون سامنے آیا تھا۔جس طرح نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا نا خوشی اس اصولی معاملہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی ویسے ہی فاروقی صاحب کے نادان دوستوں اور دوسرے محض نارنگ دشمن احباب کا ماتم بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔اس قسم کے علمی و ادبی معاملات کو تحقیقی اصولوں کے مطابق اور مجموعی ادبی تناظر میں شخصیات دشمنی کی سطح سے بلند ہو کر دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ میرے مضمون کے نتیجہ میں نارنگ صاحب پر لگے الزام کی اہمیت متاثر ہوئی ہے،ان کا یہ تاثر درست نہیں۔میرے مضمون سے صرف عمران بھنڈر کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ادب میں در اندازی کرنے والے کی نشان دہی ہوئی ہے اور اسے تمیز اور تہذیب کے دائرے میں لانے کی ایک کاوش ہوئی ہے۔جہاں تک نارنگ صاحب پر لکھے ہوئے عمران بھنڈر کے مضامین کا تعلق ہے،خود شمس الرحمن فاروقی صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ عمران بھنڈر کی دلیلوں سے نارنگ صاحب کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔سو مجھ پر غصہ اتارنے والوں کو فاروقی صاحب پر اپنا غصہ اتارنا چاہیے۔ عمران بھنڈر کے حوالے سے میرے نام لکھے گئے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خط کا متعلقہ اقتباس یہاں درج کر دیتا ہوں۔
’’جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔بھنڈر کو لوگ اب بھول رہے تھے،کیونکہ ان کی دلیلوں کے باوجود نارنگ کا کچھ بھی نہ بگڑا تھا۔‘‘
شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)
یہ انٹرنیٹ پر اٹھائے جانے والے طوفان کی کچھ روداد اور پس منظر میں موجود چند حقائق تھے جو میں نے پیش کر دئیے ہیں۔غمگسارانِ بھنڈر نے مزید طوفان اٹھایا تو اس کا جواب بھی اسی طرح کے مضمون کی صورت میں مزید دلائل کے ساتھ پیش کروں گا۔بہتر ہوگا کہ غم گسارانِ بھنڈر، اُن سے کہہ کر میرے خلاصۂ کلام کے ساتوں نکات کا ترتیب وار جواب دلوائیں۔انٹرنیٹ کے گروپس اور فیس بک وغیرہ پر ایسی بحث میں شرکت کرنا میرے لیے وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔سو یار لوگ وہاں جو چاہے موج کرتے رہیں۔
میں ایک وقفہ کے بعد ان کے سارے لکھے کا اسی طرح جائزہ پیش کردیا کروں گا۔یار زندہ صحبت باقی۔
(تحریر کردہ ۴؍ستمبر ۲۰۱۱ء)

بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی


بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی
(عمران شاہد کاعذرِ لنگ اور اس کی اصل حقیقت)

میرے مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ کو ادبی حلقوں میں بھر پور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔اس کے جواب میں ابھی تک نام نہاد’’ نوجوان فلسفی‘‘ کو پوائنٹ در پوائنٹ جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔البتہ اپنی بدنامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بد زبانی سے لبریز ایک تحریر’’وزیر آغا گروپ کے روایتی ہتھکنڈے‘‘کے نام سے بعض ادیبوں کو بھیجی ہے۔اس میں ایک تو بات کو اصل موضوعات سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصل حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔صرف ایک علمی نکتہ پر اپنی صفائی دینے کی کوشش کی ہے اور صفائی دیتے ہوئی بد زبانی کی انتہا کر دی ہے۔تاہم وہ صفائی صرف حیلہ جوئی ہے۔
میرے مضمون میں عمران شاہد بھنڈرکے سرقہ کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے مضمون کا پورا حوالہ دیا گیا ہے۔مضمون’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی‘‘ از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ ’’دی نیشن‘‘۔لندن۔22؍مارچ 2007ء کا حوالہ۔بھنڈرصاحب کی جانب سے اخبار میں چھپنے والے اس مضمون میں کہیں بھی وہ وضاحتیں نہیں ہیں جو وہ اپنی کتاب کے حوالے سے دے رہے ہیں۔میں نے ان کی کتاب کا حوالہ دے کر سرقہ نشان زد نہیں کیا بلکہ ان کے ۲۰۰۷ء میں مطبوعہ مضمون پر ساری بات کی ہے۔اعتراض اخبار کے مضمون پر کیا گیا ہے، جواب میں تین سال کے بعد چھپنے والی کتاب کی بنیاد پر وضاحت کی جا رہی ہے۔(اضافی نوٹ:)’’یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی تین سال پہلے چوری کرے اور تین سال کے بعد سب سے آنکھ بچا کر چپکے سے مالِ مسروقہ کو واپس اسی جگہ رکھنے کی کوشش کرے۔‘‘
اہلِ ادب نام نہاد نوجوان فلسفی سے پوچھیں کہ اخبار میں ۲۰۰۷ء میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ہوا ہے یا نہیں؟۔۔۔تین سال کے بعد کتاب میں کیا لکھا اور کیا نہیں لکھا،اس سے مجھے غرض نہیں۔دی نیشن لندن کے 22 ؍مارچ 2007 ء کے شمارہ میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ثابت شدہ ہے۔
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد!
جہاں تک نام نہاد نوجوان فلسفی کی دوسری باتوں اور غیر متعلقہ ہفوات کا تعلق ہے،اس کا جواب دینے کے لیے ان کی مادری زبان میں بات کرنا پڑے گی جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔میرے مضمون میں درج ہرالزام، واقعہ اور بیان مبنی بر صداقت ہے۔نام نہادنوجوان فلسفی ایک الزام سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو کئی اور الزامات بھی اُن پر آ پڑیں گے۔میرے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔باقی قانونی چارہ جوئی کی دھمکی عمران بھنڈر کی گیدڑ بھبکی ہے۔اور ان کے مذکورہ مضمون کی زبان خود ان کی علمی و ادبی حیثیت کو اجاگر کر رہی ہے۔
میں اپنے مضمون کا پارٹ ٹو دھیرے دھیرے لکھ رہا ہوں،اس میں عمران شاہد بھنڈر کے مزید سرقے پیش کر وں گا۔انشاء اللہ
!
حیدر قریشی
(تحریر کردہ: ۹؍ اگست ۲۰۱۱ء۔انٹرنیٹ سے ریلیز کی گئی)

Dienstag, 13. September 2011

ردِ عمل

ردِ عمل
اس مضمون پر بڑے پیمانے پر ردِ عمل موصول ہورہا ہے۔چند اہم ترین تاثرات میں سے مختصر سا انتخاب یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔تفصیلی تاثرات الگ سے یکجا کیے جا رہے ہیں۔ حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ذہنِ جدید‘‘ میں بھنڈر صاحب کو’’نوجوان فلسفی‘‘کہا گیا تھا،یہ بات میری نظر سے نہ گزری تھی۔کاتا اور لے دوڑی اسے کہتے ہیں۔آپ نے بھنڈر صاحب کی خوب خبر لی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نارنگ کے سرقوں کو آشکار کرنے کے سوا بھنڈر کا کوئی کام کسی خاص قدر کا حامل نہیں۔جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔(۱۶ جولائی ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقیناََ آپ کے پاس بھنڈر کے خلاف اور بھی بہت کچھ ہوگا۔میں اسے نوجو ا ن فلسفی تو کیا بوڑھا نثر نگار بھی نہیں سمجھتا۔زبیر صاحب کا مبلغ علم زیادہ نہیں،وہ اسی بات سے خوش ہو گئے ہوں گے کہ نارنگ کی پول کھولنے والا ایسا آدمی سامنے آیاجو نارنگ سے بھی زیادہ مغربی حوالے جانتا ہے۔ (۱۸ جولائی ۲۰۱۱ء)
شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thank you for sending this "ne'mat-e ghair mutaraqqiba." I read the whole article right away and felt immense pity for the man. Much as I admire your zeal in exposing such impostors, I also feel that your time is far too precious to be wasted on such non-entities. When the controversy was hot, I frequently thought of joining the fray and throw in my two-cents worth, but something prevented me. In retrospect I feel I rightly saved myself from a wasteful undertaking. But I also think that such impostors need to be exposed and cut down to their size. Somebody has to do it, even if it is wasteful, even if the culprit is a non-entity, and you are doing it. We must all be grateful to you:
سب پہ جس بار نے گرانی کی        اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
But I cannot call you a "natavan."So keep on with the good work . Warmly, m u memon
محمد عمر میمن۔(امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کی خبر ملنے پر: بھئی آپ نے جو بھنڈر صاحب کے بارے میں لکھا ہے،اس نے خاصا پریشان کر دیا۔ظاہر ہے کہ آپ نے جو الزام لگائے وہ بے بنیاد نہ ہوں گے۔یہ تو بہت افسوسناک بات ہوئی۔لیکن آپ نے ان کے مضامین چھاپے تھے ،اس لیے یہ فرض بھی آپ پر عائد ہوتا تھا۔آپ کی دیانت داری کا یہی تقاضہ تھا۔ نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا ناخوشی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
مضمون پڑھنے کے بعد: مضمون پڑھا،عبرت ہوئی۔اس سے زیادہ کچھ کہنا میرے لیے مناسب نہیں۔اردو پہ عجب آکے برا وقت پڑا ہے۔
سی ایم نعیم(امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مجھے ۔۔۔ بھنڈر صاحب کا وہ مضمون پڑھنے کااتفاق بھی ہوا ہے جو انھوں نے حیدرقریشی صاحب کی حقیقت بیانی سے برانگیختہ ہو کر لکھا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں ہر شخص’’ جھوٹ ‘‘کو لے اڑتا ہے۔ اور سچ سننے سے گریز کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ’’ شاہ دولہ کا چوہا‘‘ بھی سر پر تاج زر نگار پہنائے جانے پر فخر کرتا ہے۔ اور اپنی حقیقت کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔ حیدر قریشی صاحب نے ایسے ہی لوگوں کے خلاف تیغ برّاں ہونے کا ثبوت دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا مضمون پڑھ کر کسی شاعر کے یہ دو شعر یاد آگئے۔
ٹوٹیں اگر طنابیں، رہ جائیں گے سکڑ کے
کھنچ کر بڑے ہوئے ہیں یہ آدمی ربڑ کے
شوقِ قد آوری میں ٹانگوں سے بانس باندھے
بونے بھی پھر رہے ہیں بازار میں اکڑ کے

ڈاکٹر ریاض اکبر۔(Brisbane۔آسٹریلیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی نشست میں سارا مضمون بغور پڑھ لیا ہے،بہت دلچسپ اور چشم کشا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ                دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
راجہ محمد یوسف خان(جرمنی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا فکرانگیز مضمون "فلسفی کی نوجوانی اورشیلا کی جوانی" پڑھا۔ پہلے تومیں اسے ایک افسانہ سمجھا مگر پہلے جملے ہی نے مجھے پڑھنے کے لیے مستعدکردیا۔دراصل جو لوگ دوسرے ممالک میں جاتے ہیں وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔آپ کے ممدوح کوئی پہلی مثال نہیں ہیں۔ پاکستان میں تو وہ لوگ بھی بیرون ملک سے آتے ہیں جو خود کو بہت مال دار بنا کر پیش کرتے ہیں جب کہ وہاں یاتو ریلوے کے پلیٹ فارم صاف کرتے نظر آتے ہیں اور یا محض حکومت کی خیرات پر پل رہے ہوتے ہیں۔بہر صورت آپ کا مضمون چشم کشا ہے۔ 
خادم علی ہاشمی(ملتان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
I have studied your essay 147Falsfi Ki Naujawani and Sheela Ki Jawani148,in first instance I was little wondered to read the heading of the essay , however, you cleared the facts in very second line of the essay. Also here in Pakistan, some people want to become popular in one go or just over night which in my views is not possible especially in the field of literature as it demands continuous reading and writing experience spread over years and years of time period and with no definite reward and remuneration in terms of so called popularity and acceptability...........As your good self discussed, the book launching ceremony in Pakistan was perhaps held at Gujranwala Bar but I did not go , however, my one or two friends told me that nothing was said regarding modernism and post modernism in literature rather the political conditions of the country remained the topic of the discussions of the ceremony, actually only the literary associations can arrange literary dialogue and discussions.
شاہد جمیل(گوجرانوالا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا مضمون ملا،آج پورے دن میں اسی کو پڑھا،بہت غور سے پڑھا اور پڑھ کر بہت ہی افسوس ہوا کہ اردو ادب میں کیسے کیسے لوگ کس کس طرح سے بد دیانتی کرتے ہیں۔کیسے کیسے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کرتے ہیں اور کیسی کیسی چوریاں کرتے ہیں اور دوسروں کی محنت پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔میں تو یہ سب کچھ سوچ کر ہی پریشان ہو جاتا ہوں ۔۔۔۔آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ آپ نے کیسے کیسے کانٹوں سے الجھ کر اور کیسے کیسے لوگوں سے دشمنی مول لے کر عمران شاہد جیسے لوگوں کو بے نقاب کیا ہے۔آپ کا تخلیقی اور ادارتی کام اپنی جگہ،لیکن یہ جو ادبی چوروں کو آپ بے نقاب کر رہے ہیں،یہ اپنی طرز کا الگ ہی کام ہے۔
نذیر فتح پوری(مدیر اسباق،پونے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی تازہ ترین تحریر ’’ فلسفی کی نو جوانی اور شیلا کی جوانی ‘ ‘ پڑھی ۔ اگر تحریر آپ سے منسوب نہ ہو تی تو میں اس کو نظر انداز کر دیتا۔ عمران شاہد بھنڈر اگر فلسفے کے طالب علم ہو تے تو انہیں اپنی طلب میں اضافہ کرتے رہنا پڑتا ۔اگر وہ فلسفی کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں تو اپنی طلب میں اضافہ کرنے کی ضرو رت نہیں پڑے گی ۔اس کے بر خلاف ان کو اپنے فکری نظام کو مر بوط طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ آپ نے اس کارِ خیر میں ان کا ہاتھ بٹانے سے اعلانیہ ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔ آپ نے فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ فلاسفر کی نوجوانی تو سمجھ میں آ رہی ہے کہ یہ عمر ہی ایسی ہو تی ہے۔ ’’ خالی چنا باجے گھناگھنا ‘‘۔ کچھ عرصہ قبل آپ اس نو جوان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے تھے ۔ اب کیا ہو گیا ؟ اس کا شیلا کا ہو جا ناغلط ہوا ، فلسفی ہو نا غلط ہوا ، یا اس کا سارق ہو نا ۔آپ چور سپاہی کا کھیل ترک کرنے والے بندے نہیں لگتے ۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر مرتبہ آپ سپاہی ہی بنتے ہیں ۔بھنڈر نے اگر چور کا رول اختیار کرلیاتو واقعی اس نے ایک غلط کار نوجوا ن چور کا کام کر بھی دکھایا ۔اللہ کرے جس سرقے کی جانب آپ نے اپنی تحریر میں توجہ دلا ئی وہ اس کا پہلا اور آخری سرقہ ہو ۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ دیکھئے آپ کی اس تحریر پر کیا ردِّ عمل ظاہر کرتے ہیں ۔آپ نے جوکیا وہ آپ کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔یہ آپ نے ضرور سوچا ہو گا پھر بھی آ پ نے اپنے فرض سے منہ نہیں مو ڑا ۔ آ پ کا یہ رویہّ لائقِ تحسین ہے ۔ کسی کو اچھا لگے نہ لگے مجھے بھی اوّل اوّل مشکوک سا لگا تھا ،اب میں آپ کے قدر دانوں میں شامل ہوں ۔
عبداللہ جاوید (کینیڈا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا طویل مضمون پڑھااور لطف اندوزہوا۔آپ نے غیرشعوری طورپربھنڈرکوزیادہ کوریج دے دی ہے۔ حالانکہ ان کا کام ’ترجمہ بلاحوالہ‘ کی حد تک ہے۔اور ان کے ’ادبی سرقہ‘نے اس کو بھی گہنا دیا ہے۔۔ ۔وہ کوئی علمی شخصیت نہیں اور ’خودساختہ نوجوان فلسفی‘ ہیں توان کویہ شناخت مبارک۔علامہ اقبال پر ’تنقید‘بھی بندے کو مشہور کردیتی ہے۔جناب یہ شناخت کا المیہ بندے کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔میراخاکہ ’تیمور کی اولاد‘بھی ایسے ہی ایک کردار کے گردگھومتا ہے۔تاہم بھنڈرصاحب ایک دلچسپ کردار لگے ہیں ۔ 
ڈاکٹر عبدالکریم(مظفر آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معید رشیدی نے مضمون پر چند سوالات اٹھائے تھے،(تفصیلی تاثرات میں انہیں شامل رکھا جائے گا)میں نے ان کے جواب لکھ کر بھیجے تو انہوں نے لکھا: ’’آپ کے تمام جوابات سے متفق ہوں‘‘۔
معید رشیدی(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
حمیدہ معین رضوی(لندن۔انگلینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبردست آرٹیکل!
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(برمنگھم،انگلینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ باد! مزہ آگیا۔بھنڈر کی اصلیت اب کھلنے لگی ہے۔ 
قاسم یعقوب(مدیر’’نقاط‘‘ فیصل آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا عمدہ ہے سر جی!واہ۔بہت اچھا لکھا ہے۔
سلیمان جاذب ۔(دبئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلوب کا جواب نہیں، پہلے بھی نہیں تھا۔ 
ترنم ریاض(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تو آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے ادب میں جعل سازی کے خلاف ایک کبھی نہ ختم ہونے والی مہم چلا کر کھرے اور کھوٹے کو منظر عام پر لانے کی اپنی کاوشیں جاری رکھی ہیں۔ میرے نزدیک بھی یقیناًیہ ایک خوش آئند بات ہے۔ادبی صحافی کی حیثیت سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دینا آپ کے فرئض منصبی میں شامل ہے۔کیونکہ ایک سچا صحافی ادب کا مجاہد، ادب کا پاسبان بھی ہوتا ہے۔ بھنڈر کا پردہ فاش کر کے آپ نے ادب کی گرانقدر خدمت انجام دی ہے۔ ایسے اشخاص کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانا بعض اوقات انتہائی لازمی ہو جاتا ہے۔اردو میں سرقہ و توارد کی روایت آج کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جس طرح ایک باشعور کاشتکار اپنی کشت سے فصل کے ساتھ اگنے والے کھر پتوار کوگاہے بہ گاہے اکھاڑ پھینکتا ہے ، اسی طرح ادبی صحافت کی دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ ادب کے صحت مند اور تعمیری رویے کی پاسداری کے لیے خودرو پودوں طرح سر ابھارنے والے سرقے و توارد کا صفایا کردے ،ورنہ ان جعل سازوں کی موجودگی میں Genuin قلم کاروں کی وقعت اثر انداز ہوتی رہے گی۔آپ کی سرزنش بر وقت اور با معنی ہے جسے کوئی بھی ذی شعور شخص نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ’’نوجوان فلسفی‘‘پر آپ نے بھر پور قدغن لگایا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کسی کو بھی ذاتیات پر چھینٹا کشی کی اجازت نہ دی جائے۔آپ نے اپنے مضمون میں ثبوت و شواہد کی روشنی میں پورے منطقی استدلال کے ساتھ اپنی بات کو پائے تکمیل تک پہنچایا ہے۔ لہٰذا، مجھے امید ہے کہ آپ کی یہ قابل تحسین کوشش کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بلکہ ادبی دنیا اسے پوری سنجیدگی سے پڑھنے کے بعد ہی اپنا موقف قائم کرے گی۔ 
ڈاکٹر پرویز شہریار(نئی دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بھی یہ مضمون دلچسپی کے ساتھ پڑھا،عنوان دلچسپ ہے مگر یہی سوچتا رہا کہ آپ نے ایک شخص کو خود ہی بانس پر چڑھایا ۔۔۔۔۔۔آپ اتنی انرجی ایسے لوگوں اور کاموں پر کیوں ضائع کرتے ہیں۔آپ ماشاء اللہ ایک تخلیقی آدمی ہیں۔میں نے تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے میں بھی اتنی شدت سے مہم چلانے کو نا پسند کیا تھا۔آپ ادب میں سرقے کی بات کرتے ہیں۔مگر یہ بہت مشکل کام ہے۔اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں جو گرفت میں بھی نہیں آسکتیں۔آپ کس کس سے لڑیں گے۔ آپ نے میری ای میلز کا جواب نہیں دیا کیا ناراض ہیں؟
منشا یاد(اسلام آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ہی مجھے عکاس کا 24.7.11 کا شمارہ ملا،جس میں آپ کا مضمون’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘شائع ہوا تھا۔میں نے پورا مضمون پڑھ لیااور عمران شاہد بھنڈر والے مضامین کی یادیں تازہ ہو گئیں۔آپ کے مضمون سے ان کا پورا بیک گراؤنڈ معلوم ہو گیاجو میرے علم میں نہیں تھا۔آپ نے موصوف کا پورا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا جو ضروری تھا۔اس میں آپ کو موقف کا فی بیلنسڈ(متوازن)ہے۔سرقے کے متعلق آپ نے جو باتیں کہیں ہیں بے حد معقول ہیں۔
سہیل اختر(بھوبھنیشور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’فلسفی‘‘کی نوجوانی اورشیلا کی جوانی


’’فلسفی‘‘کی نوجوانی اورشیلا کی جوانی
(عمران شاہد بھنڈر کی مضحکہ خیزیاں،جعل سازیاں اور سرقہ)

تحریر :حیدر قریشی
مدیر جدید ادب ...جرمنی

علم و ادب کی دنیا میں کبھی کبھار سامنے کی صورتحال کے عقب میں بھی بعض حقائق موجود ہوتے ہیں جن کے سامنے آنے کے بعد سامنے کی صورتحال کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے۔یہ مضمون اسی سلسلہ میں لکھا جا رہا ہے۔مضمون کا عنوان بے شک چٹ پٹاہے لیکن کسی قسم کی سنسنی خیزی کے بغیر میں سیدھے سادے انداز میں اپنی بات کروں گا اورنفسِ مضمون سے منسلک مختلف حقائق کو، جہاں ان کے بیان کرنے کی ضرورت ہو گی بیان کرتا جاؤں گا۔عنوان چٹ پٹا ہونے کا سبب ہمارے فلاسفر صاحب خود ہیں جن کی مضحکہ خیزی کے باعث یہی عنوان مناسب لگا۔
میں ذاتی طور پر ادب میں سرقہ اور جعلسازی کے خلاف ایک عرصہ سے متحرک ہوں۔لگ بھگ۱۹۹۹ء سے۔مغربی دنیا میں سرکاری امداد پر زندگی گزارنے والے لوگ بھی آمد و خرچ کی سطح پر خود کفیل اور پاکستانی حساب سے خوشحال ہوتے ہیں۔چنانچہ وسائل کی دستیابی و خوشحالی کے باعث یہاں کے جعلی اور سارق شاعر وں اور ادیبوں کا ٹولہ ہمیشہ میرے خلاف متحد رہا ہے اور اپنی ذہنی پستی کے لحاظ سے جو کچھ میرے خلاف کر سکتا ہے کرتا رہا ہے ۔تمام تر مخالفت کے باوجود میں نے سرقہ اور جعل سازی کو بے نقاب کرنے کا اپنا کام جاری رکھا۔(اس وقت بھی انڈیامیں جوگندر پال کے افسانے کا سرقہ کرنے والے ایک کردار پر کام ہو رہا ہے)۔
اسی دوران مجھے کہیں سے بھنک پڑی کہ عمران شاہد بھنڈر نامی کسی صاحب نے ’’پاکستان پوسٹ‘‘انگلینڈ میں کوئی مضمون لکھا ہے جس میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی بعض تحاریر کو مغرب سے ترجمہ بلا حوالہ قرار دیا گیا ہے۔میں نے مضمون اور مضمون نگار کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہ مضمون ماہنامہ’’نیرنگِ خیال‘‘راولپنڈی کے سالنامہ۲۰۰۶ء میں بھی چھپ چکا ہے اور یہ کہ موصوف انگلینڈ میں کہیں پڑھتے ہیں۔اس دوران مجھے ’’نیرنگِ خیال‘‘ میں مطبوعہ مضمون ایک دوست نے فراہم کر دیا۔ مضمون بہ عنوان ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں‘‘ میں ترجمہ بلا حوالہ اقتباسات کے ساتھ ظاہر ہو رہا تھا اس لیے عنوان کے ڈھیلے پن کے باوجود مجھے مضمون مناسب لگا اور میں نے مضمون نگار عمران شاہد بھنڈر کو تلاش کرکے ان سے رابطہ کیا۔انہیں اسی مضمون کو کچھ مزید لکھ کر جدید ادب کے لیے بھیجنے کو کہا۔ انہوں نے اپنے مضمون کو اسی عنوان کے ساتھ نہ صرف چند مزید اقتباسات شامل کرکے دوگنا کر دیا بلکہ اپنے تعارف کے طور پر ایک خصوصی نوٹ بھی ساتھ بھیج دیا۔میں نے اپنے نوٹ میں اس میں سے صرف ایک حصہ شامل کیا جس کے مطابق موصوف برمنگھم یونیورسٹی سے ’’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘‘کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔(یہ اطلاع غلط تھی،تاہم اس کا انکشاف بعد میں ہوا اور اس پر مزید بات آگے چل کر ہوگی)۔جدید ادب کے شمارہ نمبر۹میں جیسے ہی موصوف کا مضمون شائع ہوا،علمی و ادبی حلقوں میں اس کا فوری نوٹس لیا گیا اور مختلف اخبارات و رسائل نے اس مضمون کے بلاحوالہ ترجمہ والے حصوں کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ (موصوف کے چھیڑے ہوئے دوسرے مباحث میں عمومی طور پر کسی نے دلچسپی نہیں لی)۔
تب تک میرے ذہن میں اتنا تھا کہ ڈاکٹر نارنگ صاحب اس مضمون کو پڑھ کر کچھ اس قسم کا خط لکھ دیں گے کہ اس مضمون میں جن حوالہ جات کی غیر موجودگی کا ذکر ہے میں انہیں دیکھتا ہوں اور کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اس شکایت کا ازالہ کردوں گا۔یہ ایک ادبی سلیقہ کی بات ہوتی اورمسئلہ بڑی حد تک یہیں پر ختم ہوجاتا۔ لیکن اس موڑ پر آکر دو خرابیاں ہوئیں۔ایک تو نارنگ صاحب نے اس قسم کی یا کسی بھی قسم کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔دوسرے میرے ایک دوست جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے نارنگ صاحب کی حمایت میں ایک مضمون لکھ ڈالا۔انہوں نے نارنگ صاحب کی محبت میں مضمون لکھا ہوگا لیکن یہ نادان دوستی کانمونہ تھا۔اس کے جواب میں عمران شاہد بھنڈر سے مضمون لکھوانا پڑا۔اس بار پھر عمران شاہد نے اپنے مزید تعارف کے طور پر بہت کچھ لکھ بھیجا جس میں سے میں نے اتنا حصہ شامل کیا:
’’ انہوں نے ۲۰۰۴ء میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ ، برمنگھم سے ’’انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم‘‘ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ۲۰۰۶ء میں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے ’’انگلش لٹریری سٹڈیز‘‘ میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ عمران بھنڈر نے اپنا مختصر مقالہ جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے فلسفہ جمالیات پر تحریر کیا اور فائنل مقالہ بیسویں صدی کی روسی تنقید پر لکھا جس میں انہوں نے لیون ٹراٹسکی کے نظریہ ادب کا ہےئت پسندوں کے نظریات سے تقابلی جائزہ لیا۔اس وقت وہ پی ایچ ڈی کے مقالے پر کام کررہے ہیں۔‘‘(جدید ادب :۱۰) ۔۔۔(عمران شاہد بھنڈر صاحب کے فراہم کردہ اس تعارفی نوٹ کے بارے میں بھی آگے چل کر ایک ساتھ بات ہو گی)۔
جاوید حیدر جوئیہ کے مضمون کے جواب میں لکھتے ہوئے موصوف اتنے رواں ہوئے کہ مضمون چھپ جانے کے بعد بھی مزید اقتباسات تلاش کراتے رہے۔اس سلسلہ میں ایک شخصیت کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جس نے مغربی کتابوں کے اقتباسات اور نارنگ صاحب کی کتاب کے اقتباسات پر کافی کام کیا۔محنت میں کسی اور کا حصہ شامل تھا لیکن اس کا پھل بھنڈر صاحب اکیلے کھا رہے تھے۔خیر یہ ان دونوں کا آپس کا معاملہ ہے۔عمران بھنڈر نے اس شخصیت کی محنت کا فراخدلانہ اقرار نہیں کیا تو یہ ان کا اپنا ظرف ہے۔بات ہو رہی تھی ان کے رواں ہو جانے کی۔چنانچہ جدید ادب کے شمارہ نمبر۱۰کے بعد شمارہ نمبر ۱۱ کے لیے بھی انہوں نے سرقات کے تناظر میں ایک مضمون فراہم کر دیا۔اس مضمون سمیت ان کے ایسے سارے مضامین میں سرقات کی نشان دہی بہت کم ہوتی ہے اور دوسرا رطب و یابس بہت زیادہ ہوتا ہے۔میں ان کے اس انداز سے تنگ تھا۔پہلے تو میں نے شمارہ نمبر۱۰میں ہی لکھ دیا تھا کہ:
’’جہاں تک دوسرے اشوز کا تعلق ہے ذاتی طور پر میں عمران شاہد کے مقابلہ میں جاوید حیدر جوئیہ سے زیادہ قریب ہوں۔لیکن یہاں ان پر ساری توجہ مرکوز کرنا نفسِ مضمون’’ بلا حوالہ ترجمہ؍سرقہ‘‘ کی طرف سے توجہ ہٹا کردر حقیقت دوسرے مباحث میں الجھا دینا ہے ۔‘‘
(جدید ادب شمارہ نمبر۱۰۔صفحہ نمبر۲۰۶)
لیکن ان کی زود گوئی اور فضول گوئی کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا،چنانچہ ان کی بعض فضولیات کے جواب میں شمارہ نمبر گیارہ کا اداریہ بھی لکھنا پڑا جس میں ان کا نام لیے بغیر ان کے مادہ پرستانہ خیالات کا ردپیش کیا گیا۔میں انہیں شروع سے ہی سمجھاتا آ رہا تھا کہ اپنی بات کو کم سے کم الفاظ میں بیان کرنا چاہیے۔بلکہ دوستانہ انداز میں انہیں یہ تک کہا تھا کہ بندہ اگر دریا کو کوزے میں بند نہیں کر سکتا تو کوزے میں سے دریا کا منظر دکھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بہر حال شمارہ نمبر گیارہ ہی میں مطبوعہ عمران کی بعض طویل فضولیات کے جواب میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھا ہوا اپنا اداریہ یہاں بھی درج کیے دیتا ہوں۔
’’ادب میں سامنے کی حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت تک رسائی کی تخلیقی کاوش ایک طرح سے صوفیانہ رویہ رہا ہے۔موجود مادی کائنات کے پارٹیکلزکی تہہ میں اس کے عقبی بھید موجود ہیں لیکن تاحال سائنس پارٹیکلز سے کوارکس (کلرز) تک پہنچ کر رُک جاتی ہے اور اس سے آگے اس کے ہونٹوں پر بھی ایک حیرت انگیز مسکراہٹ ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارے جو صاحبانِ علم مادی دنیا سے ماورا کسی حقیقت کو مجہولیت سمجھتے ہیں،انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ماورائیت کی پرچھائیوں کو مس کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والے صاحبانِ علم اپنے علم کی حد کو کائنات کے بھیدوں کی آخری حدنہ سمجھیں۔ ایسے احباب کو ان کے مادی ذہن کے مطابق ہی بتانا مناسب ہے کہ انسانی دماغ کی کار کردگی کو دیکھیں تو اس کا ۱۰فی صد ہی ابھی تک کارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے۔اس۱۰ فی صد دماغی کارکردگی نے انسان کو کتنی حیرت انگیز ترقیات کے دور تک پہنچا دیا ہے۔اس سے دماغ کا جو ۹۰ فی صد حصہ بظاہر خاموش پڑا ہے،اس کی بے پناہی کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اچھے تخلیق کاروں کو اس۹۰ فی صد سے کبھی کبھار جو کچھ ملتا ہے،اس کا اندازہ تخلیق کار ہی کر سکتے ہیں۔سو ماورائیت تو ہمارے باہربے پناہ کائنات سے لے کر ایٹم کے اندر اس کے بلڈنگ بلاک کی تلاش تک مسلسل موجود ہے۔اور انسانی دماغ کا ۹۰ فی صد خاموش حصہ بجائے خودہمارے اندرماورائیت کی کارفرمائی کا زبردست ثبوت ہے۔
ماورائیت کے نام پر یا صوفیانہ رمزیت کے نام پر اگر بعض لوگ سطحی یا بے معنی تحریریں پیش کر رہے ہیں تو اس نقلی مال کا مطلب بھی یہ نکلتا ہے کہ اصل بھی موجود ہے۔اصل کرنسی ہوتی ہے تو اس کی جعلی کرنسی بنانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں۔حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت کی جستجو رکھنے والوں کو ایک طرف تو مذہبی نظریہ سازوں کا معتوب ہونا پڑتا ہے دوسری طرف وہ لوگ بھی ان کے در پَے رہتے ہیں جو بظاہر خود کو مذہبی نظریہ سازی کے استحصالی طرز کا مخالف کہتے ہیں۔لیکن عجیب بات ہے کہ حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت اور زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں جاننے کی کوشش کرنے والوں کو دونوں طرف کے لوگوں سے ایک جیسی ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مذہبی نظریہ سازوں کے مخالف ترقی پسند وں کا رویہ تو بعض اوقات خود مولویانہ طرزِ عمل سے بھی زیادہ مولویانہ ہوجاتا ہے۔امید ہے ہمارے ایسے صاحبانِ علم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے۔‘‘
شمارہ نمبر۱۱ کے اداریہ میں جہاں میں نے ان کے خیالات سے اپنی بیزاری کو علمی سطح پر دلیل کے ساتھ ظاہر کیا،وہیں انہیں عملاََ یہ بھی بتایا کہ اپنی بات کو کم سے کم الفاظ میں کہنے کا سلیقہ کیا ہوتا ہے۔ایک اور خرابی جو بھنڈر صاحب میں تکلیف دہ حد تک تھی وہ یہ تھی کہ ایک مضمون کو تین سے چار بارتک اضافوں کے ساتھ بھیجتے چلے جاتے تھے۔ایک بار مضمون بھیجا۔میں نے محنت کرکے اسے رسالہ کے سائز میں سیٹ کر لیا تو پھر نئی فائل بھیج دی کہ پہلا ورشن رہنے دیں،یہ ورشن شامل کر لیں۔ایسا تین سے چار بار تک ہوجاتا تھا۔چنانچہ میں نے طے کر لیا کہ ان کا یہ رطب و یابس شمارہ نمبر گیارہ کے بعد بالکل نہیں چھاپوں گا۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب موصوف نے مدیر جدید ادب کے نام ایک طویل مکتوب لکھا۔میں نے اسے مضامین کے حصہ میں شامل کر لیا۔حسبِ معمول اس میں بھی بار بار اضافہ کرکے نیا ورشن بھیجا جا رہا تھا۔ایک ہی نام کی ملتی جلتی فائلز میں سے جو مجھے تازہ ترین لگی میں نے شامل کر لی۔رسالہ چھپنے کے لیے نہ صرف جا چکا تھا بلکہ پبلشر کی طرف سے رسالہ چھپ کر بائنڈنگ کے مرحلہ سے گزرنے کی اطلاع بھی آچکی تھی۔ اس دوران بھنڈر صاحب نے اپنے خط کا ذکر کیا تو میں نے بتایا کہ یہ خط انیس صفحات پرپھیلا ہوا ہے۔تب موصوف چونکے اور کہنے لگے کہ یہ آپ نے پہلا یا دوسراورشن چھاپ دیا ہے۔نیا ورشن تو مزید بہت سارے صفحات پر مشتمل تھا۔ساتھ تقاضا کرنے لگے کہ انیس صفحات پر مشتمل خط کی بجائے اس کا اضافہ شدہ نیا ورشن شامل کیا جائے۔میں نے بتایا کہ رسالہ چھپ چکا ہے تو اصرار کرنے لگے کہ رسالہ دوبارہ چھپوا لیں۔میں نے صاف انکار کر دیا،البتہ انہیں مضامین والے حصہ کی فائل بھیج دی کہ اسے دیکھ کر اطمینان کر لیں۔میں نے یہ سب کچھ دوستانہ انداز سے کیا تھا لیکن یہاں ایک اور فتنہ کھڑا ہو گیا۔موصوف کو کسی کا مضمون اپنے خط سے پہلے دیکھ کر حفظ مراتب کا خیال آگیا اور آگ سی لگ گئی۔خط کے ورشن کا مسئلہ بیچ میں رہ گیا اور اپنے خط کو آخر میں شامل کرنے پر نہ صرف شدید طور پر بگڑ گئے بلکہ ایک خاتون کے ای میل آئی ڈی سے مجھے غلیظ گالیوں کی میلز بھیجنا شروع کر دیں۔میں وہ ساری ای میلز اشعر نجمی کو فراہم کر چکا ہوں۔اس بارے میں مزید کچھ نہیں لکھتا بس اتنا کہ ان صاحب کی شخصیت اور کردارکا یہ رخ اتنا گھناؤنا اور مکروہ تھا کہ اب بھی سوچتا ہوں تو گھن آتی ہے۔حفظ مراتب کے حوالے سے البتہ یہ وضاحت کرنا چاہوں گا کہ جدید ادب میں مدیر جدید ادب کے نام کسی طویل خط کا انتخاب کرکے اسے مضامین کے حصہ میں عموماََ آخر میں ہی لگایا جاتا ہے۔پھر ان مارکسسٹ مولانا کو تو میں نے ویسے بھی ہمیشہ آخری حصہ میں چھاپا تھا۔ان کی ایک ہی اہمیت تھی کہ وہ ترجمہ بلا حوالہ کے اقتباسات آمنے سامنے لا رہے تھے۔اور بس!
بہر حال میں جوپہلے ہی ان کے رطب و یابس سے تنگ آیا ہوا تھااب بالکل طے کر لیا کہ ان کے ’’افکارِ عالیہ‘‘ کو جدید ادب میں شائع نہیں کرنا۔ان کے مضامین میں بار بار اضافہ سے مجھے ان کے اصل مسئلہ کا بھی اندازہ ہو گیا۔جب میں نے۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۴ء کے دورانیہ میں ایم اے اردو کی تیاری کی تھی تب ’’اقبال کا خصوصی مطالعہ‘‘کے تحت اقبال کے فلسفۂ خودی اور اسی پس منظر میں فلسفۂ زمان و مکان کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے کا موقعہ ملا۔مجھے یاد ہے اس وقت ایسے لگتا تھا کہ میں علم سے لبا لب بھر گیا ہوں اور مجھے خان پور میں ایسے دوستوں کی تلاش رہتی تھی جن کے ساتھ اپنے سارے پڑھے ہوئے پر گفتگو کر سکوں۔یہ ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت ہوا کرتی تھی لیکن ایم اے کر لینے کے بعد جب ان موضوعات پر مزید مطالعہ کا موقعہ ملا تو اپنے لبا لب بھرنے کی بجائے خالی ہونے کا احساس ہونے لگا۔تب اندازہ ہوا کہ وہ نصابی نوعیت کی طالب علمی کا کرشمہ تھا، اپنا پڑھا ہوا چھلکنے کو بے تاب ہوا کرتا تھا۔اپنے ذاتی تجربہ کے حوالے سے میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ عمران شاہد بھنڈر اپنی یونیورسٹی کے نصابی مطالعہ کے باعث ویسی ہی کیفیات سے گزر رہے تھے۔کسی نصابی مطالعہ کے بعد،کسی اسائنمنٹ کے بعد یا پروفیسرسے گفتگو کے بعد جو نئی باتیں ان کے سامنے آتی تھیں،وہ اس سارے پڑھے اور سنے ہوئے کو بھی اپنے مضمون میں کسی نہ کسی طور شامل کرنے لگتے تھے۔
ان کی ذات کی حد تک یہ معاملہ رہتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن جب وہ چھپے ہوئے رسالہ کو دوبارہ چھاپنے کا مطالبہ’’غنڈہ گردی‘‘ کے انداز میں کرنے لگے اور وہ بھی اس لیے کہ ان کی ہفوات سے بھر پور باتوں کا اضافہ شاملِ اشاعت کیا جائے توان کے طرزِ عمل اور مکروہ ذہنیت کے بارے میں بڑے سخت الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔میں تو آج تک خود کو طالب علم سمجھتا ہوں(یہ کوئی انکساری والی بات نہیں واقعتاََ محض ایک طالب علم ہوں لیکن صرف کسی ایک فلسفے یا علم کے کسی ایک رُخ کا نہیں بلکہ اپنی استعداد کے مطابق جو کچھ سامنے آتا ہے ،اچھا لگتا ہے اور پلے پڑتا ہے اس کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں) اور ہمہ وقت علم کی دنیا میں کچھ نہ کچھ سیکھنے میں لگا رہتا ہوں۔ عمران شاہدبھنڈر کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں اپنے ایم اے کے دوران جو کچھ پڑھا،وہ ان سے ٹھیک سے ہضم نہیں ہوا اور وہ پہلے ہلے میں ہی خود کو فلاسفر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہو گئے۔ اس زعم کا حال ذرا آگے چل کر۔۔۔۔ابھی واقعات کو ان کے زمانی تسلسل میں ہی بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
شمارہ نمبر۱۱کی اشاعت کے بعد اور شمارہ نمبر۱۲ کی اشاعت کے دوران ڈاکٹر نارنگ صاحب نے اچانک شدید ردِ عمل ظاہر کر دیا۔میں اسے حالات و واقعات کے تناظر میں بد قسمتی کہوں گا کہ وہ تب متوجہ ہوئے جب میری طرف سے معاملہ مکمل طور پر سمیٹا جا چکا تھا۔تب انہوں نے غیر ضروری طور پر شمارہ نمبر ۱۲ پر ایک طرح سے سنسر شپ نافذ کرادی۔مجھے اس کے نتیجہ میں جدید ادب کے شمارہ نمبر 12 کی کہانی لکھنا پڑ گئی۔اس کے بعد بھی میں ایک طرح سے صبر کرکے بیٹھ گیا تھا۔لیکن جب میرے مضمون کے ردِ عمل میں لندن کے ایک نازیبا شخص نے غلیظ قسم کا مضمون لکھا اور اسے’’ادب ساز‘‘ جیسے معقول جریدے نے شائع کرنے کی نا معقولیت کی تو پھر میرے دوستوں نے اور میں نے طے کر لیا کہ اب پوری جوابی کاروائی کی جانی چاہیے۔عکاس کا ڈاکٹر نارنگ نمبر ہماری طرف سے اسی کا جواب تھا۔لیکن عکاس کی بات بعد میں۔
پہلے یہاں عمران شاہد بھنڈر کی شخصیت اور کردار کا ایک اور رُخ بھی سامنے لاتا چلوں۔جن دنوں میں ہم لوگ ابھی مل کر چل رہے تھے،اور جدید ادب کے ذریعے موصوف کو خاصی پروجیکشن مل رہی تھی، عین انہیں دنوں میں موصوف کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لندن کے اس نازیبا شخص سے پینگیں بڑھا رہے ہیں جس کے مضمون کے شدید ردِ عمل میں ہم نے بعد میں عکاس کا نارنگ نمبر چھاپا تھا۔یہ بات میرے لیے حیران کن ہی نہیں افسوس ناک بھی تھی۔بے شک ادبی معاملات میں کسی سے رابطہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔لیکن جب معاملہ باقاعدہ جنگ و جدل جیسی صورت اختیار کر رہا تھا عین ان دنوں میں دوسری طرف ساز باز کرنا بجائے خود انسانی کردار میں غداری کی سرشت کی نشان دہی کرتا ہے۔یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ جس کو بھی عمران شاہد بہت زیادہ ٹیلی فون کالز کرتے ہیں بعد میں اسی کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔اس کی ایک نہیں، دو نہیں ،کئی مثالیں موجود ہیں۔جو شخص اپنے استاد ابن حسن کے بارے میں بھی الٹی سیدھی بات کرنے پر آجائے اس کے بارے میں مزید کیا کہا جائے۔بہر حال میرے سامنے ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال تھی ایک طرف عمران شاہد بھنڈراپنی سرشت سے مجبور ہو کر ساز باز کر رہے تھے،دوسری طرف نارنگ صاحب کی طرف سے دباؤ پڑ گیا تھا ۔ تیسری طرف نارنگ صاحب کے نادان دوستوں نے ان کی حمایت کے نام پر ایک طوفان کھڑا کر دیا جو بہر حال خود ان کے اور نارنگ صاحب کے خلاف ہی گیا۔ میں اس محاذ آرائی کے سارے کرداروں کواور ساری صورتحال کو ممکنہ حد تک حکمت کے ساتھ نمٹ رہا تھا،جو اندر اور باہر دونوں طرح کے مخالفین کے ساتھ درپیش تھی۔خدا کا شکر ہے کہ وہ مرحلہ اپنے انجام کو پہنچا۔میں اپنے علمی و ادبی محاذ پر سرخ رو رہا۔
شہرت طلبی کے لیے اپنی دھوکہ باز سرشت کے باوجودعمران بھنڈر کو عکاس کے نارنگ نمبر میں ہماراساتھ دینا پڑا کیونکہ وہ لندن کے جس شخص کے ساتھ مل کر میرے خلاف ساز باز کر رہے تھے اسی نے اس سازباز کی بعض باتیں ظاہر کرکے ہمارے مارکسسٹ مولانا کے کردار کے دہرے پن کو ظاہر کر دیا تھا اور اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ عکاس کے نارنگ نمبر میں ہمارا ساتھ دیتے۔وہ جس حد تک ساتھ دے سکتے تھے دے رہے تھے اور ہماری طرف سے میرے دوستوں نے ان کے مصلحت پسندانہ ساتھ کے باوجود ان کی ادبی حیثیت کے بارے میں دو ٹوک اور کھلی باتیں اسی نمبر میں لکھ دیں۔
ڈاکٹر نذر خلیق جو عکاس کے ڈاکٹر نارنگ نمبر کے مہمان مدیر تھے اور جن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی‘‘ کے موضوع پر تھا،انہوں نے اپنے مہمان اداریہ میں عمران شاہد کی بہت ساری غلط فہمیوں(در اصل خوش فہمیوں)کے بارے میں برملا طور پر لکھا کہ:
’’یہاں اس امر کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران شاہداپنے مضامین میں گوپی چند نارنگ کے سرقوں کی نشاندہی کے علاوہ جن دوسرے متعلقات میں جاتے ہیں وہاں پر ان کے سرقوں کی نشاندہی کی داد دینے کے باوجود ان سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔جدید ادب (شمارہ نمبر۱۰صفحہ نمبر۲۰۶) میں حیدر قریشی نے بھی(نمبر ہذا ص۴۱پر) اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اور یہاں بھی ان تحفظات کا اظہار ضروری ہے ۔ مثلاََ فضیل جعفری صاحب نے دس سال پہلے سے یہ لکھ رکھا ہے کہ گوپی چند نارنگ جن کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں لگتا ہے انہوں نے وہ اصل کتابیں پڑھی نہیں ہیں۔بعض دیگر ناقدین بھی یہ بات اپنے اپنے انداز میں کئی برس پہلے سے کہہ چکے ہیں۔جیسے سکندر احمد نے انہیں’’ادنیٰ ترین تراجم کی بد ترین مثال ‘‘ قرار دیا۔احمد ہمیش نے ’’انگریزی متن کے ناقص تراجمُ ‘‘ سے موسوم کیا۔اسی طرح ہمارے بہت سارے ناقدین نے مابعد جدیدیت کی محض رپورٹنگ نہیں کی۔اس قسم کے بیانات سے عمران شاہد بھنڈرکے اردو میں مطالعہ کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے وہ اپنی نصابی حدود میں جو کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں،اگر وہ ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع نہ ہوتا تو وہ اپنے کسی اور سبجیکٹ تک ہی محدود ہوتے۔ ڈاکٹر وزیر آغانے مابعد جدید مغربی تصورات سے بحث کرتے ہوئے محض رپورٹنگ نہیں کی۔’مصنف کی موت‘ کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا‘متن کی اہمیت کو شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔فضیل جعفری اور وزیر آغا وغیرہ کی یہ صرف دو مثالیں ہیں۔اردو تنقید و ادب میں مزید کئی مثبت اور روشن مثالیں موجود ہیں۔سب کچھ منفی نہیں ہے۔اسی طرح عمران کے بعض دوسرے مباحث پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔خصوصاََ جہاں ایسی غیر متعلقہ باتوں کی بھرمار ہے جن کا سرقہ کی نشاندہی کے بنیادی مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اور جو ان کے یونیورسٹی نوٹس اور نصابی نوعیت کے مواد پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران شاہد اردو تنقید میں اور کوئی کتنااہم کام کر لیں لیکن گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو بے نقاب کرناان کاسب سے اہم کام اور یہی ان کی ادبی شناخت رہے گا۔‘‘
عمران بھنڈر کے ایسے دعوے کہ یہ کام صرف انہوں نے ہی سر انجام دیا ہے،اس اداریہ میں اسے رد کر دیا گیا تھا۔ان سے یہ سب کچھ اس لیے سرزد ہوا کہ یہ ان کے نصابی مطالعہ کا حصہ بنا تھا۔پھر اس سلسلہ میں ایک اور شخصیت نے اقتباسات کی تلاش میں ان کی بہت زیادہ مدد کی،جس کا فراخدلانہ اعتراف کرنے کی بجائے عمران نے اپنی روایتی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔تاہم ان کے بنیادی کام کے سلسلہ میں بھی یہ اضافہ کر دوں کہ ناصر عباس نیر کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں بھی اس موضوع کے مطابق نارنگ صاحب کے بعض اقتباسات اور حوالہ جات شامل تھے۔صرف نارنگ صاحب ہی کے نہیں ان کے مقالہ میں تو بیس سے زائد ناقدین کرام کے اس نوعیت کے ترجمہ بلا حوالہ کے شواہد پیش کیے جا چکے ہیں جبکہ ہمارے مارکسسٹ مولانا عمران بھنڈر صرف ایک نقاد کے حوالے پیش کرکے ہی اپنے آپے سے باہر ہو گئے اور پورے اردو ادب کو للکارنے لگے۔اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔عمران کے چھیڑے ہوئے دوسرے مباحث کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نذر خلیق نے بجا طور پر ان کے ہاں اردو میں مطالعہ کی کمی کا ذکر کیا۔صرف مطالعہ کی کمی ہی نہیں ان کی ادب فہمی پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے۔میں اس حوالے سے ذرا آگے چل کر بات کروں گا۔
عکاس کے اسی نمبر میں مدیر عکاس ارشد خالد نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی حمایت میں لکھے گئے ایک مکتوب نما مضمون’’کرگس کا جہاں اور ہے۔۔۔۔‘‘کوشائع کیا تھا۔یہ مضمون شمیم طارق کا لکھا ہوا تھا۔اس مضمون میں شمیم طارق نے عمران بھنڈر کے بارے میں بڑی عمدہ رائے دی تھی،ان کے بقول:
’’عمران شاہد بھنڈر کو آپ نے دونوں شماروں میں جگہ دی ہے مگر ان کے دونوں مضامین پڑھ کر آنکھوں میں اس بوڑھی عورت کی شبیہ گھوم جاتی ہے جو اپنی گٹھری سنبھالتی ہے تو خود گر جاتی ہے اور خود کو سنبھالتی ہے تو گٹھری گر جاتی ہے۔ موصوف موضوع پر قابو رکھنے کے بجائے موضوع کے سامنے بے قابو ہوگئے ہیں۔ ‘‘
اس مضمون کو شائع کرتے ہوئے ارشد خالد نے ترجمہ بلا حوالہ والے صرف ایک نکتے پر اختلاف کرتے ہوئے شمیم طارق کے باقی مضمون سے لفظ بلفظ اتفاق کیا اوراپنے نوٹ میں لکھ دیا:
’’اس مضمون میں علامہ اقبال پرعمر ان شاہد کے نامناسب اعتراضات کے جواب میں شمیم طارق نے بجا طور پر گرفت کی ہے۔میں اس معاملہ میں شمیم طارق سے لفظ بلفظ متفق ہوں،‘‘
نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد کسی حد تک توقع کے مطابق گھمسان کا رن پڑا۔ارشد خالد ،ڈاکٹر نذر خلیق اور سعید شباب کی ہر ممکن مددتو میرے ساتھ رہی،تاہم دوستوں کی اخلاقی اور تھوڑی بہت ممکنہ مدد کے باوجودبڑی حد تک مجھے یہ لڑائی چاروں طرف سے اکیلے ہی لڑنی پڑی۔ عمران بھنڈر نے اس معاملہ میں معنی خیز خاموشی اختیار کیے رکھی۔صرف ایک موقعہ پر عمران بھنڈر نے اقبال نوید کے نام سے ایک جوابی مضمون لکھا تھا جو ظفر اقبال کے کالم کا جواب تھا۔یہاں یہ واضح کر دوں کہ اقبال نوید انگلینڈ میں مقیم شاعر ہیں لیکن انہیں مابعد جدید مباحث کا کچھ بھی علم نہیں ہے ۔ان کے نام سے جو کچھ بھی چھپا ہے وہ سارے کا سارا عمران بھنڈر کا اپنا لکھا ہوا ہے۔اس کے باوجود وہ اپنی خوشی سے استعمال ہوتے ہیں تو ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی عمران بھنڈر کا ان کے نام سے لکھا ہوا انہیں کا مان لیتے ہیں۔لیکن سلمان شاہد کے نام سے جو مضامین چھپے ہیں وہ سب عمران شاہد کے اپنے لکھے ہوئے ہیں۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مجھے عمران بھنڈر نے بتایا تھا کہ سلمان شاہد میرا چھوٹا بھائی ہے اور جدید ادب بھیجنے کے لیے سلمان شاہد کا گوجرانوالہ کا ڈاک کا پتہ بھی دیا تھا لیکن جب ان کے آبائی شہر گوجرانوالہ میں ان کے قریبی احباب سے ذکر ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ایڈریس تو ان کا ہے لیکن سلمان شاہدنام کا ان کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ہمیں ان کی ذاتی زندگی اور اس کے معاملات سے کوئی غرض نہیں۔اس سے بھی غرض نہیں ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر حقیقت میں کون ہے؟ اس کا عمران شاہد بھنڈر سے در اصل کیا رشتہ ہے؟لیکن اس بات سے غرض ضرور ہے کہ سلمان شاہدبھنڈر کے نام سے عمران کی حمایت یاان سے اختلاف کرنے والوں کی مذمت کے طور پرلکھے گئے تمام مضامین عمران شاہد کے اپنے ہی لکھے ہوئے ہیں۔یہ صورتحال اقبال نوید کے نام کو استعمال کرنے سے یکسر مختلف ہو جاتی ہے۔اقبال نوید بہر حال ایک شاعر ہے،جبکہ سلمان شاہد سرے سے کوئی لکھنے والا ہے ہی نہیں۔ سواقبال نوید کے نام کی طرح سلمان شاہد کے نام سے عمران بھنڈر کی حمایت اور ان سے اختلاف کرنے والوں کی مذمت والے مضامین بھی عمران بھنڈر نے خود لکھے ہیں۔ایسے مضامین عمران بھنڈر کی تعریف تک محدود رہیں تو ان کی معصوم خواہش کا احترام کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ کسی کے خلاف ان ناموں کو استعمال کرتے ہیں تو علمی و ادبی سطح پر یہ بات مناسب نہیں رہتی۔عظمت کے کسی مصنوعی سنگھاسن پر بیٹھ کر دوسروں کے نام سے لوگوں کے خلاف لکھنے سے بہتر ہے کہ عمران بھنڈر خود ایسے مضامین لکھا کریں۔
عکاس کے ڈاکٹر نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد کی جنگ کا سارا حال میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘میں شامل ہے اور وہ سب معاملات اب ادب کی تاریخ کے سپرد ہیں۔
۲۰۱۰ء میں عمران بھنڈر کی پہلی کتاب ’’فلسفہ ما بعد جدیدت‘‘کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب کا بنیادی سبب تو نارنگ صاحب کے ترجمہ بلاحوالہ کا موضوع ہی تھا لیکن حسبِ معمول اس میں دوسرا رطب و یابس زیادہ ہے۔لیکن اس سے بھی بڑا تماشہ یہ ہوا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد عمران شاہد بھنڈر نے باقاعدہ فلسفی ہونے کا دعویٰ کرڈالا ہے۔فلسفہ کو اپنا موضوع قرار دے کر بندہ مشاعروں کے شاعروں جیسی حرکتیں کرے تو ویسے بھی اچھا نہیں لگتا۔موصوف نے کتاب چھپنے کے بعد اس کی رونمائی کا پورا اہتمام کرایا اس کے لیے ان کی بھاگ دوڑ کی پوری داستان ہے۔اس تقریب کی روداد چھپنے لگی تو اپنے نام کے ساتھ ’’نوجوان فلسفی‘‘کا اضافہ کرایا۔ پاکستان گئے تو وہاں خاصی تگ و دو کے بعد اپنا ایک انٹرویو شائع کرایا،جو۲۲دسمبر۲۰۱۰ء کو ایک روزنامہ میں شائع ہوا۔اس میں بھی اپنے آپ کو خود ہی فلسفی قرار دے کر گفتگو فرمائی۔اخباروں میں ایک دو خبریں چھپوائیں تو ان میں اپنے نام کے ساتھ نوجوان فلسفی یا نوجوان اسکالر کے الفاظ اہتمام کے ساتھ لکھوائے۔اب ذہنِ جدید کے ایک حالیہ شمارہ(نمبر ۵۸) میں بھی عمران شاہد بھنڈر کے بارے میں تعارفی طور پرجو کچھ لکھا گیا ہے اس میں سے دو باتیں قابلِ ذکر ہیں۔ایک تو یہی کہ ۔۔نوجوان فلسفی۔۔ اور دوسری یہ کہ آپ انگلینڈ میں شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں۔پہلی بات مضحکہ خیز ہے اور دوسری بات یکسر جھوٹ۔
پہلے تو میں اپنے فلسفی کی نوجوانی کا ذکر کروں گا جس نے شیلا کی جوانی کو بھی مات دے دی ہے۔۴۰ سال کی عمر کے بعد خود کو نوجوان لکھنا جراتِ رندانہ کی طرز پر جرأتِ فلسفیانہ ہی کہی جا سکتی ہے۔ہر چند فلمی دنیا میں کم عمر اداکار کو بڑی عمر کا اوربڑی عمر کے اداکار کو کم عمر دکھایا جاتا ہے اور فلمی دنیا میں اس قسم کی رنگ بازی چلتی رہتی ہے،لیکن اس گانے کی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ کترینہ کیف تو ابھی ۳۰ برس کے لگ بھگ ہی ہے اور اس مناسبت سے شیلا کی جوانی والی بات درست اور قابلِ فہم ہے لیکن40 سال سے اوپر ہو کر ’’نوجوان فلسفی‘‘ کی یہ کمال کی فلسفیانہ نوجوانی ہے ۔فلسفی بن بیٹھنے پر بات بعد میں،پہلے شعبۂ تعلیم سے ان کی وابستگی کی حقیقت بھی بتا دی جائے۔’’ذہنِ جدید‘‘ میں چھپنے کی تاریخ تک آپ کہیں بھی نہ لیکچرر ہیں ،نہ ٹیچر ہیں حتی ٰ کہ کسی پرائمری اسکول میں بھی نہیں پڑھا رہے۔اگر پرائمری اسکول کے طالب علموں سے لے کرکالج کے سٹوڈنٹس تک کو بطور طالب علم شعبۂ تعلیم سے وابستہ سمجھ لیا جائے تو ہمارے نوجوان فلسفی ابھی اس نوعیت کی بھی کوئی وابستگی نہیں رکھتے۔ڈبل ایم اے کرکے بیکار پھر رہے ہیں۔انٹرنیشنل براڈ کاسٹ جرنلزم میں ایم اے کیا ہوا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں نئے نئے چینل کھل رہے ہیں لیکن افسوس ہمارے فلسفی کو ابھی تک اس شعبہ میں جاب نہیں مل سکی۔اسی طرح انگلش لٹریری سٹڈیزمیں ایم اے کرکے انہیں کوئی لیکچرر شپ یا ٹیچنگ جاب بھی نہیں مل سکی تو اس سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا اندازہ ہوتا ہے اور افسوس ہوتا ہے۔لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہے تو جھوٹ بتا کر اور جعل سازی سے کام لے کر کیوں اپنا جعلی تاثر قائم کر رہے ہیں؟
اور اب فلسفی بن بیٹھنے کا معاملہ!
مجھے عمران بھنڈر اپنے تعارف کے طور پر جو کچھ لکھ کر بھیجتے رہے اس میں بہت سارا جھوٹ شامل تھاجو بعد میں ظاہر ہوا۔میں شروع میں شمارہ نمبر۹ اور۱۰میں دئیے گئے ان کے تعارف کے حوالے سے ذکر کرچکا ہوں۔۲۰۰۷ء میں ان کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق ’’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘‘ کے موضوع پر موصوف پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔نظام صدیقی نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ عمران بھنڈر ابھی تک پی ایچ ڈی نہیں کر سکے،جبکہ ہمارے ساتھ مذاق یہ ہوا ہے کہ موصوف تو ابھی تک پی ایچ ڈی شروع ہی نہیں کر سکے۔انہوں نے جھوٹی اطلاع فراہم کی تھی۔ابھی تک ان کی پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن ہی نہیں ہوئی۔سو ابھی تک،اس وقت تک موصوف کسی قسم کی کوئی پی ایچ ڈی نہیں کر رہے۔ایم اے کے سلسلہ میں جدید ادب شمارہ 10میں ان کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق ’’ ۲۰۰۴ء میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ ، برمنگھم سے ’’انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم‘‘ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد۲۰۰۶ء میں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے ’’انگلش لٹریری سٹڈیز‘‘ میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔‘‘ سو ایم اے سے آگے ابھی موصوف نے کچھ نہیں کیا۔بس ’’دس جماعت پاس ڈائریکٹ حوالدار‘‘ کی طرح ایم اے کرکے’’ ڈائریکٹ فلسفی ‘‘ہو گئے ہیں۔ ایم اے انگلش سٹڈیز کو اردو میں ’’ ایم اے فلسفۂ انگریزی ادب‘‘کر کے وہ فلسفی بن سکتے ہیں تو پھر دنیا کا ہر ایم ایس سی سائنس دان ہے اور ایم اے انگلش سٹڈیز کرنے والا ہر طالب علم فلسفی۔موصوف کے فلسفی بن بیٹھنے سے بہت کچھ یاد آرہا ہے۔ایک تو اپنے بزرگوں سے سنے ہوئے ایک معروف کردار’’بابافلاسفر‘‘کے کئی جملے اور دلچسپ واقعات۔برمنگھم میں بھی کچھ دوست ایسے موجود ہیں جو’’ نوجوان فلسفی‘‘ عمران بھنڈرکو بابا فلاسفر کے گفتنی و ناگفتنی قصے سنا سکتے ہیں۔دوسرا اس نوجوان فلسفی کے برمنگھم یونیورسٹی میں استادڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ کے وہ تاثرات یادآرہے ہیں جو انہوں نے میرے افسانوں پر رائے دیتے ہوئے لکھے تھے۔’’نوجوان فلسفی‘‘ کے استاد لکھتے ہیں:
Haider Qureshi146s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.
Dr. Derek Littlewood (Birmingham, ENGLAND.)
ڈاکٹر ڈیرک کے تاثرات سے مجھے خوشی ضرور ہوئی لیکن میں کسی ایسے خبط کا شکار نہیں ہوا کہ خود کو فلسفی افسانہ نگار سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاؤں۔زندگی میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے جو مختلف اثرات خود پر مرتسم ہوئے ہیں ، جہاں جہاں داخلی طلب سامنے آئی ان کا اظہار ممکنہ حد تک سلیقے سے کر دیا ۔1983ء میں شائع شدہ میرا افسانہ’’روشنی کی بشارت‘‘نیطشے کی تمثیل کے ایک اقتباس سے شروع ہوتا ہے اور اس افسانہ میں میری طرف سے نیطشے کے مشہور اعلان کو باطل ثابت کیا گیاہے۔لیکن یہ سب کچھ نہ کسی مولویانہ طریق سے کیا ہے نہ کسی نوجوانی سے بھرپور فلسفیانہ طریقے سے ۔بس اپنی حیثیت کے مطابق جتنی تخلیقی حد تھی اسی کے مطابق ایک افسانہ تخلیق کر دیا۔ادب کی دنیا میں ہر لکھنے والے کے اپنے مطالعہ ،مشاہدہ اور تجربات کی اپنی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ مشاہدات اور تجربات کے وسیع جہان ہیں تو مطالعہ کا جہان بھی بہت وسیع ہے۔ مطالعہ کے دائرہ میں ادب،مذہب (اپنے وسیع تر مفہوم میں) ،سائنس(فلسفہ اسی کی ایک شاخ ہے)،تاریخ ،اقتصادیات وغیرہا کا ایک ایسا جہان ہے جس میں کئی جہان آباد ہیں۔اب کون کس حد تک کس خطہ تک جاتا ہے ،یہ اس کے مزاج اور دلچسپی پر منحصر ہے۔لیکن کسی ایک یا ایک سے زائد جہانوں کی سیاحت کرنے والا اپنے ’’حاصل سیاحت ‘‘کی بنا پر کسی دوسرے کی سیاحت اور سفر کو کھوٹا قرار نہیں دے سکتا۔ہر کسی کا اپنا اپنا ادبی سفر ہے اور اس سفر کا حاصل وہ تحاریر ہیں جو لکھنے والے نے ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دی ہیں۔لیکن کسی ایک خطے کی سیر کرنے والے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس دیار میں نہ آنے والوں پر یا اس کے بارے میں جانکاری نہ رکھنے والوں پر زبانِ طعن دراز کرے۔
فلسفہ فی ذاتہ سائنس کے مختلف علوم میں سے ایک ہے۔تصوف،تاریخ ،نفسیات،طبیعات،اقتصادیات،فلسفہ ۔۔۔۔کوئی ادیب ان سے اور ایسے ہی دیگر علوم سے تھوڑا بہت بہرہ ور ہے اور اس کے اثرات اس کی تخلیقات میں دکھائی دیتے ہیں تو یہ اس کی اضافی خوبی ہے۔لیکن اگر کوئی ان میں سے کسی میں دلچسپی رکھتا ہے کسی میں دلچسپی نہیں رکھتا تو یہ اس کی ترجیحات کا معاملہ ہے۔کسی شعبہ سے عدم دلچسپی کو ادب کے دیار میں لاعلمی قرار دے کر جہالت سے جوڑنا بجائے خود ایک جاہلانہ رویہ ہے۔ اگر کوئی صوفیانہ خیالات کا تخلیقی اظہار کرتا ہے اور تصوف کے علم کی کتابیں لکھنے والے کوئی صاحب مقاماتِ تصوف کی اشکال و تشریحات میں بحث کو الجھانا چاہیں تو اس کا ادب سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔کوئی شاعری میں حساب کتاب کی بات کرے اور اقتصادیات کا کوئی طالب علم اس پر ٹیکنیکل اعتراض شروع کر دے اور پھر یہ طعنہ زنی کر دے کہ اسے تو اقتصادیات کی مبادیات کا بھی علم نہیں۔جی ڈی پی کی شرح کا پتہ تک نہیں ہے تو اس نے حساب کے علم کو کیوں مَس کیا۔غالبؔ کی ایک ہی غزل میں دو مختلف جہانوں کی سیاحت موجود ہے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود                پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟                    ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
ایک شعر میں تصوف کی دنیا موجود ہے تو دوسرے شعر میں سائنس کے سوال اٹھائے گئے ہیں۔اب کوئی مولانا جیسا بندہ تصوف اور سائنس کی دنیاؤں میں ہوتا تو یہاں بھی اعتراض کرتا کہ غالب کو نہ تو صوفیانہ تجربہ ہوا نہ ہی انہیں جملہ گیسز اور پانی کا فارمولا تک معلوم تھا۔پھر وہ کیوں بلا وجہ اس قسم کے شعر کہہ رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے اور آن ریکارڈ ہے کہ عمران بھنڈر کے ہاں مابعد جدیدیت کا نصابی نوعیت کا کچا پکا مطالعہ ہی بکھرا ہوا ہے۔اردو تنقید میں کسی فن پارے کی تفہیم کے انہوں نے کوئی اچھے نمونے پیش نہیں کیے۔اقبال کی نظم کا ایسا فضول مطالعہ پیش کیا جسے شمیم طارق نے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ ایک تقریب میں فیض احمدفیض پر مضمون پڑھ آئے اوربعد میں فیض کے اشعار ڈھونڈ کرمضمون میں فٹ کرتے رہے۔ یہ تنقید نہیں ہوتی ’’منجی پیڑھی ٹھکا لَو‘‘قسم کی مضمون نگاری ہوتی ہے۔اور تو اور مغربی تنقید کے بارے میں بھی ان کی معلومات کا دائرہ بالکل محدود ہے۔مغربی تنقید کے پس منظر اور اس کے مختلف ادوار کے حوالے سے انہوں نے کوئی قابلِ ذکر معلومات تک فراہم نہیں کی۔بس اپنی نصابی حد کے ’’کنویں‘‘کے اندرنصابی علم و فضل کی موٹر سائیکل چلا کر کرتب دکھا رہے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھ کر پوری اردو دنیا کو لعنت ملامت بھی کیے جا رہے ہیں۔ ریکارڈ میں لانے کے لیے بتا دوں کہ عمران شاہد بھنڈر کے نام سے سب سے پہلا مضمون لندن کے ایک مقامی اخبار میں ۲۷؍جنوری ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا تھا۔اس مضمون کے عنوان سے عمران کی نفسیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔یہ منصور آفاق کے ساتھ کسی اختلاف کی بنا پر لکھا گیا مضمون تھا ،اور ان کے نام میں آفاق کی مناسبت سے انہیں ’’فاقے‘‘ کے نام سے للکارتے ہوئے’’کم آن فاقے‘‘ کے زیر عنوان شائع کیا گیا تھا۔مجھے یہ مضمون رابطہ ہونے کے بعد موصوف نے بھیجا تھا۔میرا آج تک منصور آفاق سے کسی نوعیت کا رابطہ نہیں رہا،اس کے باوجود میں نے عمران بھنڈر کو شروع میں ہی کہا تھا کہ یہ عنوان بہت ہی نا مناسب ہے۔اور اس سے مضمون نگار کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔کسی اور شخصیت کے ساتھ ایک بار اسی مضمون کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے کہا تھا کہ عنوان سے ہی ایسا لگتا ہے جیسے گوجرانوالہ کا کوئی پہلوان لنگر لنگوٹ کے بغیر دھوتی کے ساتھ اکھاڑے میں اتر آیا ہواور دھوتی کو آدھا اوپر کرکے،لنگوٹ جیسا باندھ کر اپنے مخالف کو للکار رہا ہو ۔اس میں ادب والی کوئی بات نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پہلے مضمون کے عنوان سے لے کر اب تک کے ان کے مستعار افکار تک میں یہی پہلوان گیری کا انداز نمایاں ہے۔
پہلوان گیری کے ساتھ خوشامدانہ توصیف میں غیر معمولی انداز اختیار کرجانا بھی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔انگلینڈ کے ایک مقامی اخبار کی۳۱مارچ ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں انور مغل کے بارے میں مضمون میں لکھتے ہیں:’’گزشتہ دنوں زندگی اور موت کی پیکار میں برمنگھم کی ایک عظیم علمی و ادبی اور سماجی شخصیت موت کو کچھ ایسے ہی انداز میں شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔۔۔‘‘۔اہلِ ادب بخوبی جانتے ہیں کہ عمران بھنڈر کے ممدوح کیسی’’ عظیم علمی و ادبی‘‘شخصیت ہیں۔ اس لطفِ ارزانی پر اب کیا کہا جا سکتا ہے ۔
اگر انہیں ادب کی تفہیم کا اوسط درجہ کا شعوربھی نصیب ہے تو وہ اردو کے کلاسیکی ادب سے لے کر اب تک کے ادوار میں سے نظم و نثر کا کچھ ایسا انتخاب کر لیں جو ان کے نزدیک عمدہ ادب میں شمار ہوتا ہو۔پھر ان منتخب تخلیقات کا ادبی مطالعہ پیش کریں اور اس انداز سے پیش کریں کہ اردو ناقدین کی بازگشت معلوم نہ ہو۔ان کی تنقید نگاری کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔بطور نقاد ان کی حیثیت کا تعین بھی کسی نہ کسی حد تک ہو ہی جائے گا۔ورنہ اپنی نصابی حدود میں مابعد جدیدفکر کی کچی پکی تشریحات پیش کرکے آپ فلسفی تو کیا اردو کے اچھے نقاد بھی نہیں کہلا سکتے۔احتشام حسین سے لے کر محمد علی صدیقی تک ترقی پسند نقادوں نے تنقید کے نام پر جو کچھ لکھا ان سے اختلاف کی کتنی ہی گنجائشیں ہوں لیکن ان سب کا ادب کی فہم کا اپنا اپنا ایک معیار تھا۔عمران بھنڈر کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پلے ابھی تک اردو ادب کی فہم کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے۔ان سے کہیں زیادہ تو سجاد ظہیر کے ہاں اردو ادب کی تفہیم کے بہتر معیار اور نمونے مل جاتے ہیں۔اسی لیے میں اصرار کر رہا ہو ں کہ موصوف اردو ادب کا ایک اپنا پسندیدہ انتخاب کرکے ان کی تفہیم و تعبیر مضامین کی صورت میں پیش کریں۔میں ابھی سے اندازہ کر سکتا ہوں کہ موصوف کیا گل کھلائیں گے۔
اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے مارکسسٹ مولانااور بقلم خود فلسفی فی ذاتہ فلسفہ سے کس حدتک واقف ہیں۔چونکہ انہوں نے ایم اے کا مختصر مقالہ کانٹ کے حوالے سے لکھا تھا سو ان کی اب تک کی تحریریں اٹھا کر دیکھ لیں۔کانٹ سے بات شروع ہو گی،ہیگل سے ہوتی ہوئی مارکس تک آئے گی۔(اپنے فائنل مقالہ کی مناسبت سے بیسویں صدی کی روسی تنقیدکے کچھ اشارے بھی دیتے جائیں گے)وہاں سے دریدا تک پہنچیں گے اور پھر اردو ادب کے خلاف دریدہ دہنی شروع کر دیں گے۔دریدہ دہنی کی صرف ایک مثال:
’’اردو دنیا کے ادباء کی اکثریت بد دیانتی،بد اخلاقی اور بے ہودگی کے حصار میں ہے۔‘‘
کیا شاہانہ انداز ہے! قہربرپا کریں تو اردو ادباء کی اکثریت کو بد دیانت،بد اخلاق اور بے ہودہ قرار دے دیں اور لطفِ ارزانی پر آئیں تو امین مغل صاحب عظیم علمی و ادبی شخصیت قرار پاجائیں۔
مولانا نے اردو والوں کے بارے میں دعویٰ فرمایا ہے کہ
’’یہ لوگ فلسفۂ جدیدیت کو نہیں سمجھ سکے تو ما بعد جدیدیت ان کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے۔‘‘
اس دماغی فتور پر موصوف کے ساتھ کسی قسم کی بحث کرنا وقت کا زیاں ہے لیکن انہیں ایک مشورہ ضرور دینا ہے کہ فلسفی بھائی صاحب! اردو دنیا تو بہت بری اور بے خبر ہے، آپ اپنی یہی شاہکار کتاب انگریزی میں ترجمہ کریں اور مغربی دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ اہلِ مغرب کو علم ہو کہ آپ جیسے بقلم خود فلسفی نے فلسفۂ ما بعد جدیدیت میں کیا گراں قدر اضافے کیے ہیں۔اور انہیں اندازہ ہو کہ ان کے درمیان ایک فلسفی پیدا ہو چکا ہے۔جب موصوف نے اردو کتاب چھاپنے کا ارادہ کیاتھا تو ان کے والد صاحب نے افسوس کے ساتھ کہا تھا کہ تمہیں انگلینڈ میں اردو کا ادیب بننے کے لیے بھیجا تھا؟۔سو جب وہ اپنی اسی کتاب کو انگریزی میں شائع کریں گے تو جہاں مغربی دنیا کو ایک نئے فلسفی کی بشارت ملے گی وہیں ان کے بزرگ بھی کچھ مطمئن ہوجائیں گے کہ چلو جو کچھ بھی لکھ رہا ہے انگریزی میں تو ہے۔
اردو کی حد تک عمران شاہد بھنڈر کا ایک ہی ادبی حوالہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے ترجمہ بلا حوالہ کو نشان زد کیا۔ یہ ادبی حوالہ پاکستان پوسٹ اور نیرنگِ خیال کے سالنامہ میں چھپا تو مضمون اور مضمون نگار دونوں ہی ان شماروں میں دفن ہو کر رہ گئے۔’’جدید ادب‘‘ نے اس مسئلہ کو جھاڑ پونچھ کر ادبی دنیا کے سامنے پیش کیا تو اس کے بعد ادبی دنیا اس سے آگاہ ہوئی۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس معاملہ کو نارنگ صاحب کے نادان دوستوں نے غیر ضروری طول نہ دیا ہوتا تو بات پہلے مضمون کے ساتھ ہی ختم تھی۔اب جبکہ جنگ و جدل والی فضا نہیں ہے توعلمی و ادبی لحاظ سے مناسب ہو گا کہ اس سارے قضیہ کو اکیلے نارنگ صاحب پر فوکس کرکے دیکھنے کی بجائے ان سارے نقادوں کے تراجم بلا حوالہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے جنہیں اردو ہی کے متعدد ادیب مختلف اوقات میں نشان زد کرتے رہے ہیں۔جن کا ایک بڑا حصہ ڈاکٹر نذر خلیق اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں یکجا کر چکے ہیں اور ان سے بھی آگے جا کر بیس سے زائدنئے پرانے نقادوں کے تراجم بلا حوالہ کو ڈاکٹر ناصر عباس نیر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں نشان زد کر چکے ہیں۔سارے چھوٹے بڑے نام یکجا کرکے اور سب کے استفادہ شدہ اقتباسات کو سامنے رکھ کرپھر جو مجموعی فیصلہ کیا جائے بجا ہو گا۔کسی نام پر خاموشی،کسی نام پر معذرت خواہانہ رویہ،کسی کے لیے استثنیٰ اور کسی کو ملامت یہ منافقت نہیں چلے گی۔میری جو معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے وہ نارنگ صاحب کے نادان دوستوں کی وجہ سے ہوئی ہے ورنہ علمی سطح پر جو نشان دہی ہونا تھی وہ ہو چکی۔اور تاریخ کے سپرد بھی ہو چکی۔سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کے موضوع پر اردو میں مجموعی طور پر جو ڈھیروں ڈھیرکام ہو چکا ہے،اس کے مجموعی تناظر میں ہی عمران شاہد بھنڈر کی صرف ایک نقاد کے بارے میں نشان دہی کو جانچا جائے گااور اس کی قدرو قیمت کا تعین کیا جائے گا۔ سو عمران بھنڈر کا یہ کام حقیقتاََبہت ہی جزوی نوعیت کا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی سے لے کر بعض انگریزی ؍اردواخبارات میں چھپنے والے تبصروں تک میں تبصرہ نگاروں نے عمران کی کتاب پر لکھتے ہوئے ان کے ’’ترجمہ بلا حوالہ ‘‘کے کام کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔
عمران بھنڈر کے واحد کام’’ترجمہ بلا حوالہ‘‘کی نشان دہی کو بھی اب شاید پہلے جیسی اہمیت نہ ملے،کیونکہ وہ خود بھی ترجمہ بلا حوالہ کا ارتکاب کر چکے ہیں۔اگر ان کے نزدیک یہ سرقہ ہے تو کیوں ہے؟۔سرقہ نہیں ہے تو کیا ہے؟یہاں ایک وضاحت کو دہرا دوں کہ میری انگریزی کا خانہ خالی ہے اور میں نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا۔تاہم عمران بھنڈر کے ایک سرقہ کو نشان زد کرنے کے لیے میں نے جی کڑا کر کے نہ صرف انگریزی کے متعلقہ مضامین تلاش کر کے پڑھ ڈالے بلکہ اس سلسلہ میں عمران کے برمنگھم یونیورسٹی میں استاد ڈیرک لٹل ووڈ سے برقی خط و کتابت کرکے شواہد تک رسائی حاصل کر لی۔انگریزی مطالعہ کے اس دلچسپ تجربے کے دوران مجھے۱۹۷۲ء کا زمانہ یاد آگیا جب اپنے بی اے کے امتحان کے لیے میں زورو شور سے اپنی ڈھیلی ڈھالی انگریزی کی تیاری کر رہا تھا۔خیر بات ہو رہی تھی عمران بھنڈر کے سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کی۔
رولاں بارت کا ایک مضمون Soap-powders and Detergents پچاس کی دہائی میں اخبار میں چھپا تھا جو بعد میں ان کی کتاب Mythologiesمیں شامل کیا گیا۔اس پر Catherine Belsey نے اپنی کتاب Poststructuralism: A Very Short Introduction میں تبصرہ کرتے ہوئے جو نکتہ ابھارا تھا،کیتھرین بیلسی کے اسی نکتہ کو عمران شاہد بھنڈر نے اپنے افکارِ عالیہ کے طور پر پیش کر دیا ہے۔پہلے رولاں بارت کے بارے میں عمران شاہد بھنڈرکا ترجمہ بلا حوالہ یا سرقہ کردہ ایک اقتباس دیکھ لیں:
’’اپنے ایک اور مضمون Soap-powders and Detergents میں فرانسیسی معاشرے کی ایک انتہائی بنیادی نفسیاتی سرگرمی کو بورژواآئیڈیالوجی کے ہاتھوں عجیب طریقے سے فطرت میں بدلتے ہوئے دیکھتا ہے۔۔۔بارت نے یہ دکھایا ہے کہ فرانسیسی گھروں میں جراثیم کو مارنے اور معروض کو ماحولیاتی گندگی سے الگ کرنے کے لیے کس طرح پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔بورژوا حکمران اس عمل کو آفاقی سطح پر استوار کرتا ہے۔وہ تیسری دنیا کے ان لوگوں کو جو خوراک کی کمی کی وجہ سے بدصورت بن چکے ہیں،انہیں اپنی جلد پر لگی ہوئی گندگی کی مانند تصور کرتا ہے۔جس کو مٹایا جانا معا شرتی حسن کے لیے از حد ضروری ہے۔۱؂۔‘‘(مضمون’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی‘‘ از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ ’’دی نیشن‘‘۔لندن۔۲۲؍مارچ ۲۰۰۷ء)
اس مضمون میں عمران نے بارت کے متن کو خوب مسخ کیا ہے۔پہلی بات تویہ صاف محسوس ہوتی ہے کہ عمران بھنڈر نے بارت کی کتاب Mythologies میں شامل مضمون Soap-powders and Detergentsکا مطالعہ ہی نہیں کیا۔وگرنہ وہ یہ نہ لکھتے کہ’’اپنے ایک اور۔۔ ۔ ۔۔فطرت میں بدلتے ہوئے دیکھتا ہے۔‘‘
بارت نے اس مضمون کا آغازستمبر 1954ء میں پیرس میں ہونے والی پہلی ورلڈ ڈیٹرجنٹ کانفرنس کے ذکر سے کیا ہے،جس کے بعد پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کے اشتہارات نہایت کثرت سے سامنے آئے۔ اب وہ فرانسیسی معاشرے میں اس حد تک رائج ہوگئے ہیں کہ ان کا نفسیاتی تحلیلی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔بارت کے اصل اقتباس کا انگریزی ترجمہ دیکھیے:
These products have been in the last few years the object of such massive advertising that they now belong to a region of French daily life which the various types of psycho-analysis would do well to pay some attention to if they wish to keep up date.
اصل میں عمران بھنڈرنے کیتھرین بیلسی کی تعارفی نوعیت کی کتابPoststructuralism: A Very Short Introduction پر ہاتھ صاف کیا ہے۔اور خاصی صفائی سے کام لیا ہے(آخر سوپ پاؤڈر اورڈیٹرجنٹ کا معاملہ تھا!)اس پیرا گراف کا پہلا جملہ بیلسی کی کتاب کے صفحہ 31 کے بعض جملوں کا چربہ اور سرقہ ہے: دیکھیے:
Because the form of ownership that determines the nature of our society is bourgeois, Barthes says, and it is the particular property of bourgeois ideology to efface itself.
جہاں تک آئیڈیالوجی کے فطرت میں بدلنے کا ذکر ہے تو آپ بیلسی ہی کا وہ جملہ پڑھ لیں جو متھ کے فطرت میں بدلنے سے متعلق ہے جسے ہمارے ’’نوجوا ن فلسفی‘‘ نے آئیڈیالوجی سے بدل دیا ہے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
Myth,Barthes explains, converts histroy into nature .P 31
نتیجہ یہ ہے کہ اصل بات کچھ کی کچھ بن گئی ہے۔
اسی طرح عمران بھنڈر کہتے ہیں کہ’’بارت نے یہ دکھایا ہے کہ فرانسیسی گھروں میں جراثیم کو مارنے اور معروض کو ماحولیاتی گندگی سے الگ کرنے کے لیے کس طرح پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کاا ستعما ل کیا جاتا ہے۔‘‘
کسی متن کو مسخ کرنے کی اتنی سفاکانہ مثال شاید ہی کوئی ہو؟ بیلسی بے چاری نے واضح کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ ’’مارنے‘‘ اور ’’الگ‘‘ کرنے میں فرق پیش نظر رہے مگر عمران بھنڈراگر ان نازک علمی مسائل کی تفہیم کا ملکہ رکھتے اور ان سب باتوں کو انگریزی میں لکھتے تو آج مغربی دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہوتا ۔خیر،پہلے بارت اور پھر اس کے خیالات کا خلاصہ کیتھرین کی زبانی سنیے:
Chlorinated fluids, for instance, have always been experienced as assort of liquid fire, the action of which must be carefully estimated; otherwise the object itself would be affected, 'burnt'. The implicit legend of this type of product rests on the idea of a violent, abrasive modification of matter: the connotations are of a chemical or mutilating type: the product 'kills' the dirt. Powders, on the contrary, are separating agents: their ideal role is to liberate the object from its circumstantial imperfection: dirt is 'forced out' and no longer killed; in the Omo imagery, dirt is a diminutive enemy, stunted and black, which takes to its heels from the fine immaculate linen at the sole threat of the judgment of Omo
(Roland Barthes, Mythologies,Translated by Annette Lavers, 1972(1957), The Noondaz Press,New York)
بارت کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ ،Chlorinated fluids کے برعکس ،’’مارتے ‘‘نہیں،معروض(یعنی کپڑے) کو اس پر لگے داغ سے آزاد اور الگ کرتے ہیں۔دیکھیے بیلسی کیا کہتی ہے۔
Traditional domestic cleaning products that use bleach or ammonia 'make war' on germs , or 'kill' dirt. By contrast what was new in the imagery of household detergents available for the first time just after the Second World War, was that they separated the dirt from the fabric decisively but wothout 'violence'..Their ideal role is to liberate the object from its circumstantial imperfection', Roland Barthes proposes,..
(Catherine Belsey, Poststructuralism Avery Short Introduction, 2002, Oxford Universty Press, London)
عمران بھنڈر کے اقتباس کا آخری جملہ ان کا اپنا اخذ کیاہوا نتیجہ ہے۔ بارت نے فقط فرانسیسی معاشرے میں بورژوا طبقے کا ذکر کیا ہے اور ظاہر ہے یہ مارکسی اصطلاح ہے اور مارکسی مفہوم ہی میں ہے۔بیلسی کے مطابق بارت خود مارکسی نہیں تھا مگرپیرس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے اُس زمانہ میں کسی دانشور کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ مارکسیت کو ملحوظ رکھے بغیر بات کرسکے۔
یہاں برمنگھم یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے استادڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ جو عمران بھنڈر کے بھی استاد رہے ہیں،ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔اس اقتباس کی تلاش کے سلسلے میں انہوں نے ہی کیتھرین بیلسی کی طرف رہنمائی کی،وگرنہ میں جولیا کرسٹیو ا میں الجھا ہوا تھا۔ جولیا کرسٹیوا کی علمی سطح بہت بلند ہے جبکہ کیتھرین بیلسی کی مذکورہ کتاب انڈر گریجوایٹ یا گریجوایٹ لیول کی چیز ہے۔اور عمران بھنڈر کی دوڑ بھی نصابی حدود یا انٹرنیٹ پربا آسانی دستیاب مواد تک ہی ہے۔میرے استفسار پر ڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ کی طرف سے سات جولائی ۲۰۱۱ء کو جو ای میل آئی اس کا ایک حصہ بھی یہاں درج کر دیتا ہوں۔
Dear Haider,
It sounds more like Catherine Belsey than Julia Kristeva. But I imagine that it is a paraphrase rather than the actual words. You would be able to read Roland Barthes for yourself, perhaps. 145Soap Powder and Detergent146 is a newspaper article from the 1950s reprinted in Barthes146s book Mythologies,
My best wishes
Derek
یہ میں نے صرف اپنے’’ نوجوان فلسفی‘‘عمران شاہد بھنڈرکے ایک مضمون کے ایک اقتباس کا سرقہ نشان زد کیا ہے اور اس پر اپنی غیر فلسفیانہ سوجھ بوجھ کے مطابق تھوڑی سی علمی بات کی ہے۔اگر انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے والے اہلِ ادب دلچسپی لیں تو عمران شاہد کی پوری کتاب سے ایسے بلا حوالہ ترجمہ کی متعدد مثالیں اور نوجوانی سے بھرپور’’ فلسفیانہ‘‘ مضحکہ خیزیاں سامنے لائی جا سکتی ہیں۔اگر ہمارے ’’نوجوان فلسفی‘‘ نے ایسی ہیرا پھیریاں نہیں کیں تو اپنی بات کو پھر دہراتا ہوں کہ اپنی کتاب کے پاکستانی ایڈیشن کو من و عن انگریزی میں ترجمہ کرکے منظرِ عام پر لائیں۔انگریزی ادب والے یا تو ان کی قدر کرتے ہوئے ایک نئے اور نوجوان فلسفی کے ظہور پر خوشی کا اظہار کریں گے،یا پھر خود ہی ان سے نمٹ لیں گے۔
خلاصۂ کلام:
۱۔عمران شاہد بھنڈر نے۲۰۰۷ء میں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوع ’’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘‘ تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ۲۰۰۷ء سے لے کر جون ۲۰۱۱ء تک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔
۲۔خود کو شعبۂ تعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂ تعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂ تعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟
۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود’’ نوجوان فلسفی‘‘ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ’’نابغہ‘‘ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔
۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔
۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔
۶۔’’نوجوان فلسفی‘‘ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔
(تحریر کردہ ۱۱؍جولائی ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔