Dienstag, 13. September 2011

ردِ عمل

ردِ عمل
اس مضمون پر بڑے پیمانے پر ردِ عمل موصول ہورہا ہے۔چند اہم ترین تاثرات میں سے مختصر سا انتخاب یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔تفصیلی تاثرات الگ سے یکجا کیے جا رہے ہیں۔ حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ذہنِ جدید‘‘ میں بھنڈر صاحب کو’’نوجوان فلسفی‘‘کہا گیا تھا،یہ بات میری نظر سے نہ گزری تھی۔کاتا اور لے دوڑی اسے کہتے ہیں۔آپ نے بھنڈر صاحب کی خوب خبر لی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نارنگ کے سرقوں کو آشکار کرنے کے سوا بھنڈر کا کوئی کام کسی خاص قدر کا حامل نہیں۔جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔(۱۶ جولائی ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقیناََ آپ کے پاس بھنڈر کے خلاف اور بھی بہت کچھ ہوگا۔میں اسے نوجو ا ن فلسفی تو کیا بوڑھا نثر نگار بھی نہیں سمجھتا۔زبیر صاحب کا مبلغ علم زیادہ نہیں،وہ اسی بات سے خوش ہو گئے ہوں گے کہ نارنگ کی پول کھولنے والا ایسا آدمی سامنے آیاجو نارنگ سے بھی زیادہ مغربی حوالے جانتا ہے۔ (۱۸ جولائی ۲۰۱۱ء)
شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thank you for sending this "ne'mat-e ghair mutaraqqiba." I read the whole article right away and felt immense pity for the man. Much as I admire your zeal in exposing such impostors, I also feel that your time is far too precious to be wasted on such non-entities. When the controversy was hot, I frequently thought of joining the fray and throw in my two-cents worth, but something prevented me. In retrospect I feel I rightly saved myself from a wasteful undertaking. But I also think that such impostors need to be exposed and cut down to their size. Somebody has to do it, even if it is wasteful, even if the culprit is a non-entity, and you are doing it. We must all be grateful to you:
سب پہ جس بار نے گرانی کی        اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
But I cannot call you a "natavan."So keep on with the good work . Warmly, m u memon
محمد عمر میمن۔(امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کی خبر ملنے پر: بھئی آپ نے جو بھنڈر صاحب کے بارے میں لکھا ہے،اس نے خاصا پریشان کر دیا۔ظاہر ہے کہ آپ نے جو الزام لگائے وہ بے بنیاد نہ ہوں گے۔یہ تو بہت افسوسناک بات ہوئی۔لیکن آپ نے ان کے مضامین چھاپے تھے ،اس لیے یہ فرض بھی آپ پر عائد ہوتا تھا۔آپ کی دیانت داری کا یہی تقاضہ تھا۔ نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا ناخوشی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
مضمون پڑھنے کے بعد: مضمون پڑھا،عبرت ہوئی۔اس سے زیادہ کچھ کہنا میرے لیے مناسب نہیں۔اردو پہ عجب آکے برا وقت پڑا ہے۔
سی ایم نعیم(امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مجھے ۔۔۔ بھنڈر صاحب کا وہ مضمون پڑھنے کااتفاق بھی ہوا ہے جو انھوں نے حیدرقریشی صاحب کی حقیقت بیانی سے برانگیختہ ہو کر لکھا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں ہر شخص’’ جھوٹ ‘‘کو لے اڑتا ہے۔ اور سچ سننے سے گریز کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ’’ شاہ دولہ کا چوہا‘‘ بھی سر پر تاج زر نگار پہنائے جانے پر فخر کرتا ہے۔ اور اپنی حقیقت کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔ حیدر قریشی صاحب نے ایسے ہی لوگوں کے خلاف تیغ برّاں ہونے کا ثبوت دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا مضمون پڑھ کر کسی شاعر کے یہ دو شعر یاد آگئے۔
ٹوٹیں اگر طنابیں، رہ جائیں گے سکڑ کے
کھنچ کر بڑے ہوئے ہیں یہ آدمی ربڑ کے
شوقِ قد آوری میں ٹانگوں سے بانس باندھے
بونے بھی پھر رہے ہیں بازار میں اکڑ کے

ڈاکٹر ریاض اکبر۔(Brisbane۔آسٹریلیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی نشست میں سارا مضمون بغور پڑھ لیا ہے،بہت دلچسپ اور چشم کشا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ                دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
راجہ محمد یوسف خان(جرمنی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا فکرانگیز مضمون "فلسفی کی نوجوانی اورشیلا کی جوانی" پڑھا۔ پہلے تومیں اسے ایک افسانہ سمجھا مگر پہلے جملے ہی نے مجھے پڑھنے کے لیے مستعدکردیا۔دراصل جو لوگ دوسرے ممالک میں جاتے ہیں وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔آپ کے ممدوح کوئی پہلی مثال نہیں ہیں۔ پاکستان میں تو وہ لوگ بھی بیرون ملک سے آتے ہیں جو خود کو بہت مال دار بنا کر پیش کرتے ہیں جب کہ وہاں یاتو ریلوے کے پلیٹ فارم صاف کرتے نظر آتے ہیں اور یا محض حکومت کی خیرات پر پل رہے ہوتے ہیں۔بہر صورت آپ کا مضمون چشم کشا ہے۔ 
خادم علی ہاشمی(ملتان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
I have studied your essay 147Falsfi Ki Naujawani and Sheela Ki Jawani148,in first instance I was little wondered to read the heading of the essay , however, you cleared the facts in very second line of the essay. Also here in Pakistan, some people want to become popular in one go or just over night which in my views is not possible especially in the field of literature as it demands continuous reading and writing experience spread over years and years of time period and with no definite reward and remuneration in terms of so called popularity and acceptability...........As your good self discussed, the book launching ceremony in Pakistan was perhaps held at Gujranwala Bar but I did not go , however, my one or two friends told me that nothing was said regarding modernism and post modernism in literature rather the political conditions of the country remained the topic of the discussions of the ceremony, actually only the literary associations can arrange literary dialogue and discussions.
شاہد جمیل(گوجرانوالا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا مضمون ملا،آج پورے دن میں اسی کو پڑھا،بہت غور سے پڑھا اور پڑھ کر بہت ہی افسوس ہوا کہ اردو ادب میں کیسے کیسے لوگ کس کس طرح سے بد دیانتی کرتے ہیں۔کیسے کیسے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کرتے ہیں اور کیسی کیسی چوریاں کرتے ہیں اور دوسروں کی محنت پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔میں تو یہ سب کچھ سوچ کر ہی پریشان ہو جاتا ہوں ۔۔۔۔آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ آپ نے کیسے کیسے کانٹوں سے الجھ کر اور کیسے کیسے لوگوں سے دشمنی مول لے کر عمران شاہد جیسے لوگوں کو بے نقاب کیا ہے۔آپ کا تخلیقی اور ادارتی کام اپنی جگہ،لیکن یہ جو ادبی چوروں کو آپ بے نقاب کر رہے ہیں،یہ اپنی طرز کا الگ ہی کام ہے۔
نذیر فتح پوری(مدیر اسباق،پونے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی تازہ ترین تحریر ’’ فلسفی کی نو جوانی اور شیلا کی جوانی ‘ ‘ پڑھی ۔ اگر تحریر آپ سے منسوب نہ ہو تی تو میں اس کو نظر انداز کر دیتا۔ عمران شاہد بھنڈر اگر فلسفے کے طالب علم ہو تے تو انہیں اپنی طلب میں اضافہ کرتے رہنا پڑتا ۔اگر وہ فلسفی کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں تو اپنی طلب میں اضافہ کرنے کی ضرو رت نہیں پڑے گی ۔اس کے بر خلاف ان کو اپنے فکری نظام کو مر بوط طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ آپ نے اس کارِ خیر میں ان کا ہاتھ بٹانے سے اعلانیہ ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔ آپ نے فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ فلاسفر کی نوجوانی تو سمجھ میں آ رہی ہے کہ یہ عمر ہی ایسی ہو تی ہے۔ ’’ خالی چنا باجے گھناگھنا ‘‘۔ کچھ عرصہ قبل آپ اس نو جوان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے تھے ۔ اب کیا ہو گیا ؟ اس کا شیلا کا ہو جا ناغلط ہوا ، فلسفی ہو نا غلط ہوا ، یا اس کا سارق ہو نا ۔آپ چور سپاہی کا کھیل ترک کرنے والے بندے نہیں لگتے ۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر مرتبہ آپ سپاہی ہی بنتے ہیں ۔بھنڈر نے اگر چور کا رول اختیار کرلیاتو واقعی اس نے ایک غلط کار نوجوا ن چور کا کام کر بھی دکھایا ۔اللہ کرے جس سرقے کی جانب آپ نے اپنی تحریر میں توجہ دلا ئی وہ اس کا پہلا اور آخری سرقہ ہو ۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ دیکھئے آپ کی اس تحریر پر کیا ردِّ عمل ظاہر کرتے ہیں ۔آپ نے جوکیا وہ آپ کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔یہ آپ نے ضرور سوچا ہو گا پھر بھی آ پ نے اپنے فرض سے منہ نہیں مو ڑا ۔ آ پ کا یہ رویہّ لائقِ تحسین ہے ۔ کسی کو اچھا لگے نہ لگے مجھے بھی اوّل اوّل مشکوک سا لگا تھا ،اب میں آپ کے قدر دانوں میں شامل ہوں ۔
عبداللہ جاوید (کینیڈا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا طویل مضمون پڑھااور لطف اندوزہوا۔آپ نے غیرشعوری طورپربھنڈرکوزیادہ کوریج دے دی ہے۔ حالانکہ ان کا کام ’ترجمہ بلاحوالہ‘ کی حد تک ہے۔اور ان کے ’ادبی سرقہ‘نے اس کو بھی گہنا دیا ہے۔۔ ۔وہ کوئی علمی شخصیت نہیں اور ’خودساختہ نوجوان فلسفی‘ ہیں توان کویہ شناخت مبارک۔علامہ اقبال پر ’تنقید‘بھی بندے کو مشہور کردیتی ہے۔جناب یہ شناخت کا المیہ بندے کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔میراخاکہ ’تیمور کی اولاد‘بھی ایسے ہی ایک کردار کے گردگھومتا ہے۔تاہم بھنڈرصاحب ایک دلچسپ کردار لگے ہیں ۔ 
ڈاکٹر عبدالکریم(مظفر آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معید رشیدی نے مضمون پر چند سوالات اٹھائے تھے،(تفصیلی تاثرات میں انہیں شامل رکھا جائے گا)میں نے ان کے جواب لکھ کر بھیجے تو انہوں نے لکھا: ’’آپ کے تمام جوابات سے متفق ہوں‘‘۔
معید رشیدی(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
حمیدہ معین رضوی(لندن۔انگلینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبردست آرٹیکل!
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(برمنگھم،انگلینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ باد! مزہ آگیا۔بھنڈر کی اصلیت اب کھلنے لگی ہے۔ 
قاسم یعقوب(مدیر’’نقاط‘‘ فیصل آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا عمدہ ہے سر جی!واہ۔بہت اچھا لکھا ہے۔
سلیمان جاذب ۔(دبئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلوب کا جواب نہیں، پہلے بھی نہیں تھا۔ 
ترنم ریاض(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تو آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے ادب میں جعل سازی کے خلاف ایک کبھی نہ ختم ہونے والی مہم چلا کر کھرے اور کھوٹے کو منظر عام پر لانے کی اپنی کاوشیں جاری رکھی ہیں۔ میرے نزدیک بھی یقیناًیہ ایک خوش آئند بات ہے۔ادبی صحافی کی حیثیت سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دینا آپ کے فرئض منصبی میں شامل ہے۔کیونکہ ایک سچا صحافی ادب کا مجاہد، ادب کا پاسبان بھی ہوتا ہے۔ بھنڈر کا پردہ فاش کر کے آپ نے ادب کی گرانقدر خدمت انجام دی ہے۔ ایسے اشخاص کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانا بعض اوقات انتہائی لازمی ہو جاتا ہے۔اردو میں سرقہ و توارد کی روایت آج کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جس طرح ایک باشعور کاشتکار اپنی کشت سے فصل کے ساتھ اگنے والے کھر پتوار کوگاہے بہ گاہے اکھاڑ پھینکتا ہے ، اسی طرح ادبی صحافت کی دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ ادب کے صحت مند اور تعمیری رویے کی پاسداری کے لیے خودرو پودوں طرح سر ابھارنے والے سرقے و توارد کا صفایا کردے ،ورنہ ان جعل سازوں کی موجودگی میں Genuin قلم کاروں کی وقعت اثر انداز ہوتی رہے گی۔آپ کی سرزنش بر وقت اور با معنی ہے جسے کوئی بھی ذی شعور شخص نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ’’نوجوان فلسفی‘‘پر آپ نے بھر پور قدغن لگایا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کسی کو بھی ذاتیات پر چھینٹا کشی کی اجازت نہ دی جائے۔آپ نے اپنے مضمون میں ثبوت و شواہد کی روشنی میں پورے منطقی استدلال کے ساتھ اپنی بات کو پائے تکمیل تک پہنچایا ہے۔ لہٰذا، مجھے امید ہے کہ آپ کی یہ قابل تحسین کوشش کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بلکہ ادبی دنیا اسے پوری سنجیدگی سے پڑھنے کے بعد ہی اپنا موقف قائم کرے گی۔ 
ڈاکٹر پرویز شہریار(نئی دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بھی یہ مضمون دلچسپی کے ساتھ پڑھا،عنوان دلچسپ ہے مگر یہی سوچتا رہا کہ آپ نے ایک شخص کو خود ہی بانس پر چڑھایا ۔۔۔۔۔۔آپ اتنی انرجی ایسے لوگوں اور کاموں پر کیوں ضائع کرتے ہیں۔آپ ماشاء اللہ ایک تخلیقی آدمی ہیں۔میں نے تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے میں بھی اتنی شدت سے مہم چلانے کو نا پسند کیا تھا۔آپ ادب میں سرقے کی بات کرتے ہیں۔مگر یہ بہت مشکل کام ہے۔اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں جو گرفت میں بھی نہیں آسکتیں۔آپ کس کس سے لڑیں گے۔ آپ نے میری ای میلز کا جواب نہیں دیا کیا ناراض ہیں؟
منشا یاد(اسلام آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ہی مجھے عکاس کا 24.7.11 کا شمارہ ملا،جس میں آپ کا مضمون’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘شائع ہوا تھا۔میں نے پورا مضمون پڑھ لیااور عمران شاہد بھنڈر والے مضامین کی یادیں تازہ ہو گئیں۔آپ کے مضمون سے ان کا پورا بیک گراؤنڈ معلوم ہو گیاجو میرے علم میں نہیں تھا۔آپ نے موصوف کا پورا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا جو ضروری تھا۔اس میں آپ کو موقف کا فی بیلنسڈ(متوازن)ہے۔سرقے کے متعلق آپ نے جو باتیں کہیں ہیں بے حد معقول ہیں۔
سہیل اختر(بھوبھنیشور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen