Donnerstag, 2. Februar 2012

جمیل الرحمن ۔۔۔سچ سے جھوٹ تک۔۔۔

آئنہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے
جمیل الرحمن ۔۔۔سچ سے جھوٹ تک۔۔۔

جب میں نے اپنا مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘مکمل کر لیا تھا تو سب سے پہلے شمس الرحمن فاروقی صاحب کو بھیجا تھا اور ان سے ان کی رائے اور مشورہ مانگا تھا۔انہوں نے عنایت کی مجھے اپنی رائے اور مشورے سے نوازا۔انہوں نے اپنے خط میں ایک خدشہ کا اظہار کیا تھا۔وہ انہیں کے الفاظ میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔
’’یہ بھی غور فرمالیجیے کہ اس مضمون کی اشاعت سے آپ کے پرچے کی ساکھ اور آپ کی ساکھ پر اثر پڑ سکتا ہے۔لوگ کہیں گے کہ کل تک تو آپ بھنڈر کو اٹھائے اٹھائے پھر تے تھے اور آج کیا ہوا جو اس میں اتنی برائیاں ثابت کی جا رہی ہیں۔نارنگ کے حامی یہی کہیں گے کہ قریشی صاحب کا جھگڑا کسی اور ہی بات پر ہوا ہوگا۔کچھ ذاتی مفادات کا تصادم ہوگا۔اب قریشی صاحب اسے یہ رنگ دے رہے ہیں۔میں جانتا ہوں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے‘‘۔(شمس الرحمن فاروقی بنام حیدر قریشی ۱۶؍جولائی ۲۰۱۱ء)
اس کے جواب میں ۱۷ جولائی کی میری ای میل میں فاروقی صاحب کی خدمت میں یہ الفاظ لکھے گئے:
’’میں نے جو لکھا ہے اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جس پر مجھے شرمندگی ہو۔نہ ہی جوابی الزام تراشیوں میں میرے حصہ میں کوئی ایسا ادبی الزام و اقدام ہے جس پر مجھے ندامت ہو۔بلکہ کسی اعتراض کی صورت میں مزید کئی حقائق بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں جو تب سے ہی میرے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔‘‘
مضمون کی اشاعت کے بعد محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خدشہ کے مطابق اعتراضات تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے احباب نے کرنا تھے لیکن عجب ماجرا ہواکہ بجائے نارنگ صاحب کے دوستوں کے خود شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قریبی احباب نے نہ صرف اس پر طوفان کھڑا کیا بلکہ عین وہی اعتراض کیے جن کا ذکر فاروقی صاحب اپنے خط میں کر چکے تھے۔نہ صرف وہی اعتراض کیے گئے بلکہ فاروقی صاحب کے اپنے الفاظ کے مطابق’’ میں جانتا ہوں کہ حقیقت اور ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے‘‘جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر افواہ سازی سے پوری طرح کام لیا گیا۔میں یہ سوچتا رہ گیا کہ خدشہ تو فاروقی صاحب کا لفظ بلفظ درست ثابت ہوا لیکن مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایسا نارنگ صاحب کے دوستوں نے نہیں کیا ،شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوستوں نے کیا اور بڑے منظم طریقے سے کیا۔ مجھے اس ساری صورتِ حال پر ان دوستوں پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا فاروقی صاحب پر ہوا ۔مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ وہ مجھے خدشہ سے آگاہ کر رہے تھے یا بالواسطہ طور پر کسی رنگ میں دھمکی دے رہے تھے۔ شاید وہ خود ہی اس بارے میں کچھ بتا سکیں۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوسرے نیازمند جمیل الرحمن صاحب کے سلسلہ میں بھی چند حقائق پیش کردینا مناسب ہے تاکہ اس معاملہ میں ان کاکردار بھی ادبی طور پرپورے سیاق و سباق کے ساتھ محفوظ رہے۔پہلے میری کھٹی میٹھی یادوں’’ کے ایک باب سے ایک اقتباس:
’’مجھ پر آنے والے تکلیف دہ دنوں میں سے ایک وہ عرصہ تھا جب بے وزن شعری مجموعے رکھنے والوں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں نے مل کر میرے خلاف غلیظ مہم شروع کی تھی۔اس تمام عرصہ میں بھی میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا۔میرے خلاف مہم چلانے والے اس لائق نہیں کہ میں ان کے ناموں سے اپنی یادوں کے اس سلسلہ کو آلودہ کروں۔ان کا ذکر کسی اور جگہ پر ہی کافی رہے گا لیکن دو شخصیات اس غلیظ کھیل میں ایسی بھی شریک ہوئیں،جن کا صدمہ مجھے آج بھی ہے۔یہ شخصیات تھیں (تب)سویڈن میں مقیم ڈاکٹر پرویز پروازی اورہالینڈ میں مقیم جمیل الرحمن ۔دونوں صاحبان نے میرے جرمنی پہنچنے کے بعد مجھے خود ڈھونڈا اور خود مجھ سے رابطہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔جمیل الرحمن نے جب میرا اتہ پتہ ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا تب انہوں نے ادبی حوالے سے مجھے تعریف کی حد تک جوکچھ کہا،اسے درج کرنا مناسب نہیں ہے۔لیکن جب وہ پرویز پروازی کے کہنے پر میرے خلاف غلیظ مہم کے سپاہی بنے تو مجھے دلی صدمہ ہوا۔وہ جس طرح کی حرکتیں ہالینڈ سے لے کر ہندوستان اور پاکستان تک کرآئے تھے،مجھے ساتھ کے ساتھ ان کی رپورٹ مل رہی تھی۔اس مہم کے بعد کئی بار جمیل الرحمن کے فون آتے رہے۔میں نے انہیں ان کی کسی زیادتی کا احساس تک نہیں دلایا لیکن ان کے ساتھ کبھی گرمجوشی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔انسان کتنا ہی زیادتی کر لے اگر اس کی فطرت میں تھوڑی بہت نیکی کی رمق ہو تو ضمیر کچوکے ضرور لگاتا ہے۔چنانچہ ایک بار جمیل نے خود ہی کھل کر معذرت کی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا صرف استاد،شاگرد کے رشتے کی وجہ سے کیا۔میں نے تب بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔وقفے وقفے سے آٹھ دس بار ٹیلی فون کرنے کے بعد ایک بار انہوں نے گلہ کیا کہ وہ اتنی بار مجھے فون کرچکے ہیں جبکہ میں انہیں فون نہیں کر رہا۔میں نے تب بھی بات کو ٹال دیا۔اس سے اگلی بار جب جمیل الرحمن کا فون آیا تو مجھ پر برہمی کا اظہار کرنے لگے کہ میں ہر بار فون کرتا ہوں۔آپ فون نہیں کرتے۔تب میں نے اتنا جواب دے دیا کہ میں نے کب آپ سے کہا ہے کہ آپ مجھے فون کیا کریں؟اس دن کے بعد سے ان کا کوئی فون نہیں آیا یعنی ؂ وہ بھی ہیں آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے ‘‘ *
(’’جدید ادب‘‘ جرمنی شمارہ نمبر ۹۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء۔صفحہ نمبر ۱۷۹،۱۸۰۔
’’عمرِ لاحاصل کا حاصل ‘‘صفحہ نمبر۴۹۰،۴۹۱،۔۔یادوں کا باب ’’روح اور جسم‘‘)
یادوں کے باب میں یہ ذکر چھپنے کے بعد جمیل الرحمن صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا،اس رابطہ کا حال بھی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔یادوں کے اسی باب کے آخر میں لکھا ہے:
’’* میری یادوں کا یہ باب جدید ادب کے شمارہ: ۹ میں چھپنے کے لئے پریس میں جا چکا تھا جب مجھے ایک مدت کے بعد پھر جمیل الرحمن کا فون آ گیا۔ان کا فون آنے سے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔میں نے انہیں کھل کر بتا دیا کہ میں نئے باب میں آپ کا ’’ذکرِ خیر‘‘ کر چکا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں،آپ نے جو لکھا،میں کچھ نہیں کہوں گا۔ان کے ساتھ مختلف ادبی موضوعات پر بات ہوئی۔’’رہے نام اللہ کا!‘‘کے مندرجات انہیں بہت پسند آئے تھے۔اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتے رہے۔سائنس،مذہب اور ادب کی اپنی اپنی خود مختاری کے ساتھ تینوں کے ربطِ باہم پر دلچسپ باتیں ہوئیں۔بحیثیت شاعر میں نے ان کی خوبیوں کو مانا ہے،خامیوں کا انہیں خود بخوبی علم ہے۔میں جمیل الرحمن سے اپنی شدید ناراضی کے دنوں میں بھی اپنے مضمون’’یورپی ممالک میں اردو شعرو ادب:ایک جائزہ‘‘میں نہ صرف ان کا ذکر کر چکا ہوں بلکہ انہیں یورپ کے ان معدودے چند شعراء میں شمار کیا ہے ،جو اردو شاعری کی نام نہاد بین الاقوامیت سے قطع نظر، اردو کی مین سٹریم یا ادب کے مرکزی دھارے کے اہم شعراء کے ہم پلہ ہیں۔ نجی سطح پر جو دکھ تھا وہ ان کی دوبارہ ٹیلی فون کال آنے پر ہونے والی کھلی اور دو ٹوک گفتگو نے دور کر دیا ہے۔شاید بہت ساری غلط فہمیاں عدم رابطہ کے باعث بھی ہو جاتی ہیں۔اللہ انہیں خوش رکھے۔
(ح۔ق)

(’’جدید ادب‘‘ جرمنی شمارہ نمبر ۱۰۔جنوری تا جون ۲۰۰۸ء۔صفحہ نمبر ۶۔بہ عنوان ’’ایک چھوٹی سی وضاحت‘‘)
اس تجدید دوستی کے بعدجمیل الرحمن صاحب پر ایک کڑا وقت بھی آیا اور ایک دوست کی حیثیت سے میں ان کی جو ڈھارس بندھا سکتا تھا،وہ میں نے بندھائی۔اس کا کچھ ذکر ریکارڈ پر موجود ہے اور پیش ہے:
’’ اسی دوران ہالینڈ سے لندن شفٹ ہوجانے والے دوست جمیل الرحمن کا فون آیا تواپنے بعض مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اتنے جذباتی ہو گئے کہ خودکشی کی بات کرنے لگے۔میں نے انہیں سمجھایاکہ میں پاکستان میں ایک بار ایسی کیفیت سے گزرا ہوں لیکن اب تو خدا کا فضل ہی فضل ہے۔پھر ان پر جو خدا کے فضل اور احسانات ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دلائی اور کہا کہ ہم بامراد لوگ ہیں،نامراد نہیں ہیں۔ سوخودکشی کا سوچنا بھی خدا کی ناشکری میں شمار ہوگا۔مجھے خوشی ہے کہ ایک نازک مرحلہ پر میں ایک دوست کے لیے زندگی بخش اچھی باتیں کر سکا اور اس کے لیے وقتی طور پر سہی سکون کا موجب بنا۔ ‘‘
(یادوں کا باب ’’زندگی در زندگی‘‘۔مطبوعہ ’’جدید ادب ‘‘جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۶۔جنوری تا جون ۲۰۱۱ء)
ان تین اہم اقتباسات سے جمیل الرحمن صاحب کے اور میرے درمیان تعلق کی نوعیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ان کی ادبی شخصیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اسی دور میں جب وہ تجدیدِ دوستی کر چکے تھے،ڈاکٹر نارنگ صاحب کی حامیوں کے ساتھ معرکہ برپا ہوا۔جمیل الرحمن صاحب فون پر تو باتیں کرتے رہے لیکن عملی طور پر انہوں نے عمران بھنڈر کے حوالے سے ایک لفظ تائید میں نہیں لکھا اور میری معرکہ آرائی کے وقت بھی انہیں تحریری طور پر ایک لفظ لکھنے کی توفیق بھی نہیں ملی۔ بس ٹیلی فون پر زبانی جمع خرچ کی حد تک باتیں کر لیا کرتے تھے۔اسی دوران جب عمران بھنڈر کی بد تمیزی اور بدزبانی والی ای میلز کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے جمیل الرحمن صاحب کو ساری صورتِ حال سے آگا ہ کیا۔انہوں نے عمران بھنڈر کے خلاف سخت لفظ استعمال کیے اور کہا کہ میں کسی اور کی گارنٹی نہیں دیتا لیکن اگر ایسے خبیث شخص کے ساتھ لڑنا پڑا تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔میں نے تب ہی انہیں بتا دیا تھا کہ جب تک نارنگ صاحب کے حامیوں والا محاذ بند نہیں ہوتا،میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔ہاں جب بھی یہ محاذ بند ہوا میں عمران بھنڈر صاحب کے سارے قرض چکاؤں گا،تب آپ ساتھ دے دیجیے گا۔لیکن شاید جمیل الرحمن صاحب کی قسمت میں ہمیشہ جعل سازی اور سرقہ کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کی حمایت کرنے والے لوگوں کے حلقہ میں شامل رہنا ہی لکھا ہوا ہے ۔اب جب ان کے وعدہ کے ایفا کا وقت آیا تو ساتھ دینا تو درکنار وہ کھل کر مخالفین کی صف میں کھڑے تھے۔ لگ بھگ دس سال پہلے کی طرح اس بار بھی کمین گاہ میں جمیل الرحمن صاحب موجود تھے۔یقیناََ انہیں اپنا وعدہ بھول گیا ہوگا لیکن شایدیہ ان کے ادبی مقدر کی بات تھی،اور ان کی ادبی شناخت میں شامل رہنا تھی۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
’’ذہنِ جدید‘‘ میں بھنڈر صاحب کو’’نوجوان فلسفی‘‘کہا گیا تھا،یہ بات میری نظر سے نہ گزری تھی۔کاتا اور لے دوڑی اسے کہتے ہیں۔آپ نے بھنڈر صاحب کی خوب خبر لی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نارنگ کے سرقوں کو آشکار کرنے کے سوا بھنڈر کا کوئی کام کسی خاص قدر کا حامل نہیں۔جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔(۱۶ جولائی ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقیناََ آپ کے پاس بھنڈر کے خلاف اور بھی بہت کچھ ہوگا۔میں اسے نوجو ا ن فلسفی تو کیا بوڑھا نثر نگار بھی نہیں سمجھتا۔زبیر صاحب کا مبلغ علم زیادہ نہیں،وہ اسی بات سے خوش ہو گئے ہوں گے کہ نارنگ کی پول کھولنے والا ایسا آدمی سامنے آیاجو نارنگ سے بھی زیادہ مغربی حوالے جانتا ہے۔ (۱۸ جولائی ۲۰۱۱ء)
شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

(اسی بلاگ میں شامل مضمون ’’عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی‘‘کے اقتباس۔
مزید تفصیل مکمل مضامین پڑھنے سے سامنے آئے گی)

ڈاکٹر نذر خلیق (راولپنڈی) حیدر قریشی کی وضاحتوں کے حوالے سے

ڈاکٹر نذر خلیق (راولپنڈی)
حیدر قریشی کی وضاحتوں کے حوالے سے

روزنامہ انصاف کے ادبی ایڈیشن مورخہ ۱۴ ستمبر۲۰۱۱ء میں حیدر قریشی کا وضاحتی مضمون پڑھا۔اس سے پہلے میں عمران شاہد بھنڈر کے حوالے سے ان کے پہلے تینوں معرکتہ الآراء مضامین اور عمران شاہد بھنڈر کا ایک گالیوں بھرا جواب بغور پڑھ چکا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان مضامین سے تحقیق و تنقید کے سلسلے کو نئے سرے سے جانچنا ضروری ہو گیا ہے۔حیدرقریشی نے خلاصۂ کلام کے عنوان سے جو سات نکات پیش کئے ہیں،ان کی بڑی اہمیت ہے۔اچھی بات یہ ہو گی کہ عمران شاہد بھنڈر ان کا نمبر وار جواب دیں۔اگر وہ اصل نکات کو چھوڑ کر گفتگو کا رُخ کسی اور طرف موڑتے ہیں تو اس سے بات نہیں بنے گی۔ میں یہاں حیدر قریشی کے اٹھائے گئے نکات کو ایک ایک کر کے پھر بیان کرتا ہوں اور ہر نکتے کے ساتھ دو امکانی جواب لکھتا ہوں۔عمران شاہد بھنڈر اس انداز میں کوئی جواب لکھیں تو ان کی تباہ شدہ ساکھ کچھ نہ کچھ بحال ہو سکتی ہے۔
نکتہ نمبر ایک:۔’’عمران شاہد بھنڈر نے2007ء میں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوع Postmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ء سے لے کر جون 2011ء تک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میں نے ۲۰۰۷ء میں پی ایچ ڈی کی اسی موضوع کی رجسٹریشن کرا لی تھی۔یونیورسٹی کا ریکارڈ پیش کر رہا ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔میں نے واقعی جھوٹ بولا تھا، اپنے اس جھوٹ پر ادبی دنیا کے سامنے ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔
نکتہ نمبر دو:۔’’خود کو شعبۂ تعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂ تعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂ تعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟‘‘
ممکنہ جواب:۱۔یہ بات جھوٹ ہے اور میں اس وقت برطانیہ کے فلاں کالج یا یونیورسٹی میں لیکچرر یا پروفیسر ہوں۔ثبوت پیش کر رہا ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔میں نے یہ بھی جھوٹ بولا تھا، اپنے اس جھوٹ پر بھی ادبی دنیا کے سامنے ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔
نکتہ نمبر تین:۔’’خود کو بقلم خود اور بزبان خود’’ نوجوان فلسفی‘‘ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ’’نابغہ‘‘ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میں فلسفی ہوں اور نوجوان بھی ہوں۔میری کتاب کا انگریزی ترجمہ جلد شائع ہو جائے گا اور مغربی دنیا اردو والوں کو بتائے گی کہ میں کس پائے کا فلسفی ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔میری ان باتوں اور حرکتوں پر بھی در گزر سے کام لیا جائے۔
نکتہ نمبر چار:۔’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔چلیں آپ لوگ اس کام کو تو مانتے رہیں،کل کو اس کی بھی نفی اور تردید ہو گئی تومیرا کیا بنے گا۔
ممکنہ جواب:۲۔مجھے لگتا ہے اب اس کام کی بھی نفی ہو جائے گی۔
نکتہ نمبر پانچ:۔’’عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔ ‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میری کتاب میں تو وہ سرقہ نہیں ہے جس کی نشان دہی کی گئی ہے۔(یہ جواب دیا جا چکا ہے اور اس کا الجواب بھی سامنے آچکا ہے)
ممکنہ جواب:۲۔ اخبار ’’دی نیشن‘‘۔لندن۔22؍مارچ 2007ء میں میرا جو مضمون’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی‘‘ چھپا تھا اس میں واقعی سرقہ ثابت ہو گیا ہے اور میں اس پر ادبی دنیا کے سامنے ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔
نکتہ نمبرچھ:۔’’عمران شاہد بھنڈر جو سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے خود ہی اپنی تعریف میں اوراپنے مخالفین کی مذمت میں مضامین لکھتے رہے ہیں،اس بارے میں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر ان کا کم سن بیٹا ہے۔بچے کی قانونی حیثیت کیا ہے،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن عمران بھنڈر ابھی تک خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتے رہے ہیں،تو دوسروں پر غلیظ اور جھوٹے حملے کرنے سے پہلے غیر شادی شدہ باپ کی حیثیت سے انہیں اپنی اخلاقی حیثیت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔سلمان شاہد بھنڈر میرا چھوٹا بھائی ہے وہ بھی میری طرح ایک اعلیٰ ادیب ہے،میرا بیٹا نہیں ہے اور میں ابھی تک غیر شادی شدہ ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے لکھنے پر ندامت کا اظہار کرتا ہوں،یہ جانتے ہوئے کہ دوسروں پر میرے ذاتی حملے جھوٹ پر مبنی تھے،میں نے انہیں اچھالا،مجھے اس کی سزا قدرت کی طرف سے ملی،میرے اپنے بھید کھل گئے۔یہ باتیں پاکستان میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھیں اب وہاں بھی سب کو معلوم ہو گئیں۔میں شرمندگی کا اظہارہی کرسکتا ہوں۔
نکتہ نمبر سات:۔’’نوجوان فلسفی‘‘ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میں اردو ادب کے قدیم اور جدید فن پاروں کا ایک انتخاب کرکے عنقریب تنقیدی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کرنے والا ہوں۔ان مضامین میں کانٹ،ہیگل اور ان فلسفیوں کا کوئی ذکر نہیں ہو گا جو میرے ایم اے کے مطالعہ میں شامل رہے ہیں۔
ممکنہ جواب:۲۔اردو ادب قدیم ہو یا جدیدتخلیقی ادب کا مطالعہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔جب مطالعہ ہی نہیں کر سکتا تو تنقید خاک لکھوں گا۔
یہ امکانی جواب میری اختراع ہیں لیکن حقیقت سے بہت زیادہ قریب ہیں۔عمران شاہد بھنڈر اپنی مرضی کے مطابق نکتہ وار جواب لکھیں تب ہی ان کی نجات ممکن ہے ورنہ اردو دنیا پر ان کی حقیقت ظاہر ہو چکی ہے۔اور اس حقیقت کے ظاہر ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے میں ان کے سارے الزامات کو از سرِ نو جانچا جائے۔یہ دیکھنا ضروری ہے عمران شاہد بھنڈر نے ان کے معاملہ میں مبالغہ ، تعصب،فریب کاری اور جعل سازی سے کام تو نہیں لیا۔جب یہ عناصر ان کے مزاج میں اس حد تک رچ بس چکے ہیں تو اس پہلو سے ان کے اس کام کا نئے سرے سے جائزہ لینا ضروری ہے۔کیونکہ ان کا وہ سارا کام اب شک کی زد میں آگیا ہے۔ 
(مطبوعہ روزنامہ انصاف لاہور۔۲۱؍ستمبر۲۰۱۱ء)