Donnerstag, 2. Februar 2012

جمیل الرحمن ۔۔۔سچ سے جھوٹ تک۔۔۔

آئنہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے
جمیل الرحمن ۔۔۔سچ سے جھوٹ تک۔۔۔

جب میں نے اپنا مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘مکمل کر لیا تھا تو سب سے پہلے شمس الرحمن فاروقی صاحب کو بھیجا تھا اور ان سے ان کی رائے اور مشورہ مانگا تھا۔انہوں نے عنایت کی مجھے اپنی رائے اور مشورے سے نوازا۔انہوں نے اپنے خط میں ایک خدشہ کا اظہار کیا تھا۔وہ انہیں کے الفاظ میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔
’’یہ بھی غور فرمالیجیے کہ اس مضمون کی اشاعت سے آپ کے پرچے کی ساکھ اور آپ کی ساکھ پر اثر پڑ سکتا ہے۔لوگ کہیں گے کہ کل تک تو آپ بھنڈر کو اٹھائے اٹھائے پھر تے تھے اور آج کیا ہوا جو اس میں اتنی برائیاں ثابت کی جا رہی ہیں۔نارنگ کے حامی یہی کہیں گے کہ قریشی صاحب کا جھگڑا کسی اور ہی بات پر ہوا ہوگا۔کچھ ذاتی مفادات کا تصادم ہوگا۔اب قریشی صاحب اسے یہ رنگ دے رہے ہیں۔میں جانتا ہوں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے‘‘۔(شمس الرحمن فاروقی بنام حیدر قریشی ۱۶؍جولائی ۲۰۱۱ء)
اس کے جواب میں ۱۷ جولائی کی میری ای میل میں فاروقی صاحب کی خدمت میں یہ الفاظ لکھے گئے:
’’میں نے جو لکھا ہے اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جس پر مجھے شرمندگی ہو۔نہ ہی جوابی الزام تراشیوں میں میرے حصہ میں کوئی ایسا ادبی الزام و اقدام ہے جس پر مجھے ندامت ہو۔بلکہ کسی اعتراض کی صورت میں مزید کئی حقائق بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں جو تب سے ہی میرے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔‘‘
مضمون کی اشاعت کے بعد محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خدشہ کے مطابق اعتراضات تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے احباب نے کرنا تھے لیکن عجب ماجرا ہواکہ بجائے نارنگ صاحب کے دوستوں کے خود شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قریبی احباب نے نہ صرف اس پر طوفان کھڑا کیا بلکہ عین وہی اعتراض کیے جن کا ذکر فاروقی صاحب اپنے خط میں کر چکے تھے۔نہ صرف وہی اعتراض کیے گئے بلکہ فاروقی صاحب کے اپنے الفاظ کے مطابق’’ میں جانتا ہوں کہ حقیقت اور ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے‘‘جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر افواہ سازی سے پوری طرح کام لیا گیا۔میں یہ سوچتا رہ گیا کہ خدشہ تو فاروقی صاحب کا لفظ بلفظ درست ثابت ہوا لیکن مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایسا نارنگ صاحب کے دوستوں نے نہیں کیا ،شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوستوں نے کیا اور بڑے منظم طریقے سے کیا۔ مجھے اس ساری صورتِ حال پر ان دوستوں پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا فاروقی صاحب پر ہوا ۔مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ وہ مجھے خدشہ سے آگاہ کر رہے تھے یا بالواسطہ طور پر کسی رنگ میں دھمکی دے رہے تھے۔ شاید وہ خود ہی اس بارے میں کچھ بتا سکیں۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوسرے نیازمند جمیل الرحمن صاحب کے سلسلہ میں بھی چند حقائق پیش کردینا مناسب ہے تاکہ اس معاملہ میں ان کاکردار بھی ادبی طور پرپورے سیاق و سباق کے ساتھ محفوظ رہے۔پہلے میری کھٹی میٹھی یادوں’’ کے ایک باب سے ایک اقتباس:
’’مجھ پر آنے والے تکلیف دہ دنوں میں سے ایک وہ عرصہ تھا جب بے وزن شعری مجموعے رکھنے والوں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں نے مل کر میرے خلاف غلیظ مہم شروع کی تھی۔اس تمام عرصہ میں بھی میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا۔میرے خلاف مہم چلانے والے اس لائق نہیں کہ میں ان کے ناموں سے اپنی یادوں کے اس سلسلہ کو آلودہ کروں۔ان کا ذکر کسی اور جگہ پر ہی کافی رہے گا لیکن دو شخصیات اس غلیظ کھیل میں ایسی بھی شریک ہوئیں،جن کا صدمہ مجھے آج بھی ہے۔یہ شخصیات تھیں (تب)سویڈن میں مقیم ڈاکٹر پرویز پروازی اورہالینڈ میں مقیم جمیل الرحمن ۔دونوں صاحبان نے میرے جرمنی پہنچنے کے بعد مجھے خود ڈھونڈا اور خود مجھ سے رابطہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔جمیل الرحمن نے جب میرا اتہ پتہ ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا تب انہوں نے ادبی حوالے سے مجھے تعریف کی حد تک جوکچھ کہا،اسے درج کرنا مناسب نہیں ہے۔لیکن جب وہ پرویز پروازی کے کہنے پر میرے خلاف غلیظ مہم کے سپاہی بنے تو مجھے دلی صدمہ ہوا۔وہ جس طرح کی حرکتیں ہالینڈ سے لے کر ہندوستان اور پاکستان تک کرآئے تھے،مجھے ساتھ کے ساتھ ان کی رپورٹ مل رہی تھی۔اس مہم کے بعد کئی بار جمیل الرحمن کے فون آتے رہے۔میں نے انہیں ان کی کسی زیادتی کا احساس تک نہیں دلایا لیکن ان کے ساتھ کبھی گرمجوشی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔انسان کتنا ہی زیادتی کر لے اگر اس کی فطرت میں تھوڑی بہت نیکی کی رمق ہو تو ضمیر کچوکے ضرور لگاتا ہے۔چنانچہ ایک بار جمیل نے خود ہی کھل کر معذرت کی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا صرف استاد،شاگرد کے رشتے کی وجہ سے کیا۔میں نے تب بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔وقفے وقفے سے آٹھ دس بار ٹیلی فون کرنے کے بعد ایک بار انہوں نے گلہ کیا کہ وہ اتنی بار مجھے فون کرچکے ہیں جبکہ میں انہیں فون نہیں کر رہا۔میں نے تب بھی بات کو ٹال دیا۔اس سے اگلی بار جب جمیل الرحمن کا فون آیا تو مجھ پر برہمی کا اظہار کرنے لگے کہ میں ہر بار فون کرتا ہوں۔آپ فون نہیں کرتے۔تب میں نے اتنا جواب دے دیا کہ میں نے کب آپ سے کہا ہے کہ آپ مجھے فون کیا کریں؟اس دن کے بعد سے ان کا کوئی فون نہیں آیا یعنی ؂ وہ بھی ہیں آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے ‘‘ *
(’’جدید ادب‘‘ جرمنی شمارہ نمبر ۹۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء۔صفحہ نمبر ۱۷۹،۱۸۰۔
’’عمرِ لاحاصل کا حاصل ‘‘صفحہ نمبر۴۹۰،۴۹۱،۔۔یادوں کا باب ’’روح اور جسم‘‘)
یادوں کے باب میں یہ ذکر چھپنے کے بعد جمیل الرحمن صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا،اس رابطہ کا حال بھی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔یادوں کے اسی باب کے آخر میں لکھا ہے:
’’* میری یادوں کا یہ باب جدید ادب کے شمارہ: ۹ میں چھپنے کے لئے پریس میں جا چکا تھا جب مجھے ایک مدت کے بعد پھر جمیل الرحمن کا فون آ گیا۔ان کا فون آنے سے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔میں نے انہیں کھل کر بتا دیا کہ میں نئے باب میں آپ کا ’’ذکرِ خیر‘‘ کر چکا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں،آپ نے جو لکھا،میں کچھ نہیں کہوں گا۔ان کے ساتھ مختلف ادبی موضوعات پر بات ہوئی۔’’رہے نام اللہ کا!‘‘کے مندرجات انہیں بہت پسند آئے تھے۔اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتے رہے۔سائنس،مذہب اور ادب کی اپنی اپنی خود مختاری کے ساتھ تینوں کے ربطِ باہم پر دلچسپ باتیں ہوئیں۔بحیثیت شاعر میں نے ان کی خوبیوں کو مانا ہے،خامیوں کا انہیں خود بخوبی علم ہے۔میں جمیل الرحمن سے اپنی شدید ناراضی کے دنوں میں بھی اپنے مضمون’’یورپی ممالک میں اردو شعرو ادب:ایک جائزہ‘‘میں نہ صرف ان کا ذکر کر چکا ہوں بلکہ انہیں یورپ کے ان معدودے چند شعراء میں شمار کیا ہے ،جو اردو شاعری کی نام نہاد بین الاقوامیت سے قطع نظر، اردو کی مین سٹریم یا ادب کے مرکزی دھارے کے اہم شعراء کے ہم پلہ ہیں۔ نجی سطح پر جو دکھ تھا وہ ان کی دوبارہ ٹیلی فون کال آنے پر ہونے والی کھلی اور دو ٹوک گفتگو نے دور کر دیا ہے۔شاید بہت ساری غلط فہمیاں عدم رابطہ کے باعث بھی ہو جاتی ہیں۔اللہ انہیں خوش رکھے۔
(ح۔ق)

(’’جدید ادب‘‘ جرمنی شمارہ نمبر ۱۰۔جنوری تا جون ۲۰۰۸ء۔صفحہ نمبر ۶۔بہ عنوان ’’ایک چھوٹی سی وضاحت‘‘)
اس تجدید دوستی کے بعدجمیل الرحمن صاحب پر ایک کڑا وقت بھی آیا اور ایک دوست کی حیثیت سے میں ان کی جو ڈھارس بندھا سکتا تھا،وہ میں نے بندھائی۔اس کا کچھ ذکر ریکارڈ پر موجود ہے اور پیش ہے:
’’ اسی دوران ہالینڈ سے لندن شفٹ ہوجانے والے دوست جمیل الرحمن کا فون آیا تواپنے بعض مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اتنے جذباتی ہو گئے کہ خودکشی کی بات کرنے لگے۔میں نے انہیں سمجھایاکہ میں پاکستان میں ایک بار ایسی کیفیت سے گزرا ہوں لیکن اب تو خدا کا فضل ہی فضل ہے۔پھر ان پر جو خدا کے فضل اور احسانات ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دلائی اور کہا کہ ہم بامراد لوگ ہیں،نامراد نہیں ہیں۔ سوخودکشی کا سوچنا بھی خدا کی ناشکری میں شمار ہوگا۔مجھے خوشی ہے کہ ایک نازک مرحلہ پر میں ایک دوست کے لیے زندگی بخش اچھی باتیں کر سکا اور اس کے لیے وقتی طور پر سہی سکون کا موجب بنا۔ ‘‘
(یادوں کا باب ’’زندگی در زندگی‘‘۔مطبوعہ ’’جدید ادب ‘‘جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۶۔جنوری تا جون ۲۰۱۱ء)
ان تین اہم اقتباسات سے جمیل الرحمن صاحب کے اور میرے درمیان تعلق کی نوعیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ان کی ادبی شخصیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اسی دور میں جب وہ تجدیدِ دوستی کر چکے تھے،ڈاکٹر نارنگ صاحب کی حامیوں کے ساتھ معرکہ برپا ہوا۔جمیل الرحمن صاحب فون پر تو باتیں کرتے رہے لیکن عملی طور پر انہوں نے عمران بھنڈر کے حوالے سے ایک لفظ تائید میں نہیں لکھا اور میری معرکہ آرائی کے وقت بھی انہیں تحریری طور پر ایک لفظ لکھنے کی توفیق بھی نہیں ملی۔ بس ٹیلی فون پر زبانی جمع خرچ کی حد تک باتیں کر لیا کرتے تھے۔اسی دوران جب عمران بھنڈر کی بد تمیزی اور بدزبانی والی ای میلز کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے جمیل الرحمن صاحب کو ساری صورتِ حال سے آگا ہ کیا۔انہوں نے عمران بھنڈر کے خلاف سخت لفظ استعمال کیے اور کہا کہ میں کسی اور کی گارنٹی نہیں دیتا لیکن اگر ایسے خبیث شخص کے ساتھ لڑنا پڑا تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔میں نے تب ہی انہیں بتا دیا تھا کہ جب تک نارنگ صاحب کے حامیوں والا محاذ بند نہیں ہوتا،میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔ہاں جب بھی یہ محاذ بند ہوا میں عمران بھنڈر صاحب کے سارے قرض چکاؤں گا،تب آپ ساتھ دے دیجیے گا۔لیکن شاید جمیل الرحمن صاحب کی قسمت میں ہمیشہ جعل سازی اور سرقہ کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کی حمایت کرنے والے لوگوں کے حلقہ میں شامل رہنا ہی لکھا ہوا ہے ۔اب جب ان کے وعدہ کے ایفا کا وقت آیا تو ساتھ دینا تو درکنار وہ کھل کر مخالفین کی صف میں کھڑے تھے۔ لگ بھگ دس سال پہلے کی طرح اس بار بھی کمین گاہ میں جمیل الرحمن صاحب موجود تھے۔یقیناََ انہیں اپنا وعدہ بھول گیا ہوگا لیکن شایدیہ ان کے ادبی مقدر کی بات تھی،اور ان کی ادبی شناخت میں شامل رہنا تھی۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
’’ذہنِ جدید‘‘ میں بھنڈر صاحب کو’’نوجوان فلسفی‘‘کہا گیا تھا،یہ بات میری نظر سے نہ گزری تھی۔کاتا اور لے دوڑی اسے کہتے ہیں۔آپ نے بھنڈر صاحب کی خوب خبر لی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نارنگ کے سرقوں کو آشکار کرنے کے سوا بھنڈر کا کوئی کام کسی خاص قدر کا حامل نہیں۔جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔(۱۶ جولائی ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقیناََ آپ کے پاس بھنڈر کے خلاف اور بھی بہت کچھ ہوگا۔میں اسے نوجو ا ن فلسفی تو کیا بوڑھا نثر نگار بھی نہیں سمجھتا۔زبیر صاحب کا مبلغ علم زیادہ نہیں،وہ اسی بات سے خوش ہو گئے ہوں گے کہ نارنگ کی پول کھولنے والا ایسا آدمی سامنے آیاجو نارنگ سے بھی زیادہ مغربی حوالے جانتا ہے۔ (۱۸ جولائی ۲۰۱۱ء)
شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

(اسی بلاگ میں شامل مضمون ’’عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی‘‘کے اقتباس۔
مزید تفصیل مکمل مضامین پڑھنے سے سامنے آئے گی)

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen