Donnerstag, 2. Februar 2012

ڈاکٹر نذر خلیق (راولپنڈی) حیدر قریشی کی وضاحتوں کے حوالے سے

ڈاکٹر نذر خلیق (راولپنڈی)
حیدر قریشی کی وضاحتوں کے حوالے سے

روزنامہ انصاف کے ادبی ایڈیشن مورخہ ۱۴ ستمبر۲۰۱۱ء میں حیدر قریشی کا وضاحتی مضمون پڑھا۔اس سے پہلے میں عمران شاہد بھنڈر کے حوالے سے ان کے پہلے تینوں معرکتہ الآراء مضامین اور عمران شاہد بھنڈر کا ایک گالیوں بھرا جواب بغور پڑھ چکا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان مضامین سے تحقیق و تنقید کے سلسلے کو نئے سرے سے جانچنا ضروری ہو گیا ہے۔حیدرقریشی نے خلاصۂ کلام کے عنوان سے جو سات نکات پیش کئے ہیں،ان کی بڑی اہمیت ہے۔اچھی بات یہ ہو گی کہ عمران شاہد بھنڈر ان کا نمبر وار جواب دیں۔اگر وہ اصل نکات کو چھوڑ کر گفتگو کا رُخ کسی اور طرف موڑتے ہیں تو اس سے بات نہیں بنے گی۔ میں یہاں حیدر قریشی کے اٹھائے گئے نکات کو ایک ایک کر کے پھر بیان کرتا ہوں اور ہر نکتے کے ساتھ دو امکانی جواب لکھتا ہوں۔عمران شاہد بھنڈر اس انداز میں کوئی جواب لکھیں تو ان کی تباہ شدہ ساکھ کچھ نہ کچھ بحال ہو سکتی ہے۔
نکتہ نمبر ایک:۔’’عمران شاہد بھنڈر نے2007ء میں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوع Postmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ء سے لے کر جون 2011ء تک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میں نے ۲۰۰۷ء میں پی ایچ ڈی کی اسی موضوع کی رجسٹریشن کرا لی تھی۔یونیورسٹی کا ریکارڈ پیش کر رہا ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔میں نے واقعی جھوٹ بولا تھا، اپنے اس جھوٹ پر ادبی دنیا کے سامنے ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔
نکتہ نمبر دو:۔’’خود کو شعبۂ تعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂ تعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂ تعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟‘‘
ممکنہ جواب:۱۔یہ بات جھوٹ ہے اور میں اس وقت برطانیہ کے فلاں کالج یا یونیورسٹی میں لیکچرر یا پروفیسر ہوں۔ثبوت پیش کر رہا ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔میں نے یہ بھی جھوٹ بولا تھا، اپنے اس جھوٹ پر بھی ادبی دنیا کے سامنے ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔
نکتہ نمبر تین:۔’’خود کو بقلم خود اور بزبان خود’’ نوجوان فلسفی‘‘ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ’’نابغہ‘‘ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میں فلسفی ہوں اور نوجوان بھی ہوں۔میری کتاب کا انگریزی ترجمہ جلد شائع ہو جائے گا اور مغربی دنیا اردو والوں کو بتائے گی کہ میں کس پائے کا فلسفی ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔میری ان باتوں اور حرکتوں پر بھی در گزر سے کام لیا جائے۔
نکتہ نمبر چار:۔’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔چلیں آپ لوگ اس کام کو تو مانتے رہیں،کل کو اس کی بھی نفی اور تردید ہو گئی تومیرا کیا بنے گا۔
ممکنہ جواب:۲۔مجھے لگتا ہے اب اس کام کی بھی نفی ہو جائے گی۔
نکتہ نمبر پانچ:۔’’عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔ ‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میری کتاب میں تو وہ سرقہ نہیں ہے جس کی نشان دہی کی گئی ہے۔(یہ جواب دیا جا چکا ہے اور اس کا الجواب بھی سامنے آچکا ہے)
ممکنہ جواب:۲۔ اخبار ’’دی نیشن‘‘۔لندن۔22؍مارچ 2007ء میں میرا جو مضمون’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی‘‘ چھپا تھا اس میں واقعی سرقہ ثابت ہو گیا ہے اور میں اس پر ادبی دنیا کے سامنے ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔
نکتہ نمبرچھ:۔’’عمران شاہد بھنڈر جو سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے خود ہی اپنی تعریف میں اوراپنے مخالفین کی مذمت میں مضامین لکھتے رہے ہیں،اس بارے میں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر ان کا کم سن بیٹا ہے۔بچے کی قانونی حیثیت کیا ہے،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن عمران بھنڈر ابھی تک خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتے رہے ہیں،تو دوسروں پر غلیظ اور جھوٹے حملے کرنے سے پہلے غیر شادی شدہ باپ کی حیثیت سے انہیں اپنی اخلاقی حیثیت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔سلمان شاہد بھنڈر میرا چھوٹا بھائی ہے وہ بھی میری طرح ایک اعلیٰ ادیب ہے،میرا بیٹا نہیں ہے اور میں ابھی تک غیر شادی شدہ ہوں۔
ممکنہ جواب:۲۔سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے لکھنے پر ندامت کا اظہار کرتا ہوں،یہ جانتے ہوئے کہ دوسروں پر میرے ذاتی حملے جھوٹ پر مبنی تھے،میں نے انہیں اچھالا،مجھے اس کی سزا قدرت کی طرف سے ملی،میرے اپنے بھید کھل گئے۔یہ باتیں پاکستان میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھیں اب وہاں بھی سب کو معلوم ہو گئیں۔میں شرمندگی کا اظہارہی کرسکتا ہوں۔
نکتہ نمبر سات:۔’’نوجوان فلسفی‘‘ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
ممکنہ جواب:۱۔میں اردو ادب کے قدیم اور جدید فن پاروں کا ایک انتخاب کرکے عنقریب تنقیدی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کرنے والا ہوں۔ان مضامین میں کانٹ،ہیگل اور ان فلسفیوں کا کوئی ذکر نہیں ہو گا جو میرے ایم اے کے مطالعہ میں شامل رہے ہیں۔
ممکنہ جواب:۲۔اردو ادب قدیم ہو یا جدیدتخلیقی ادب کا مطالعہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔جب مطالعہ ہی نہیں کر سکتا تو تنقید خاک لکھوں گا۔
یہ امکانی جواب میری اختراع ہیں لیکن حقیقت سے بہت زیادہ قریب ہیں۔عمران شاہد بھنڈر اپنی مرضی کے مطابق نکتہ وار جواب لکھیں تب ہی ان کی نجات ممکن ہے ورنہ اردو دنیا پر ان کی حقیقت ظاہر ہو چکی ہے۔اور اس حقیقت کے ظاہر ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بارے میں ان کے سارے الزامات کو از سرِ نو جانچا جائے۔یہ دیکھنا ضروری ہے عمران شاہد بھنڈر نے ان کے معاملہ میں مبالغہ ، تعصب،فریب کاری اور جعل سازی سے کام تو نہیں لیا۔جب یہ عناصر ان کے مزاج میں اس حد تک رچ بس چکے ہیں تو اس پہلو سے ان کے اس کام کا نئے سرے سے جائزہ لینا ضروری ہے۔کیونکہ ان کا وہ سارا کام اب شک کی زد میں آگیا ہے۔ 
(مطبوعہ روزنامہ انصاف لاہور۔۲۱؍ستمبر۲۰۱۱ء)

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen