Mittwoch, 14. September 2011

بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی


بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی
(عمران شاہد کاعذرِ لنگ اور اس کی اصل حقیقت)

میرے مضمون ’’فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی‘‘ کو ادبی حلقوں میں بھر پور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔اس کے جواب میں ابھی تک نام نہاد’’ نوجوان فلسفی‘‘ کو پوائنٹ در پوائنٹ جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔البتہ اپنی بدنامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بد زبانی سے لبریز ایک تحریر’’وزیر آغا گروپ کے روایتی ہتھکنڈے‘‘کے نام سے بعض ادیبوں کو بھیجی ہے۔اس میں ایک تو بات کو اصل موضوعات سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصل حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔صرف ایک علمی نکتہ پر اپنی صفائی دینے کی کوشش کی ہے اور صفائی دیتے ہوئی بد زبانی کی انتہا کر دی ہے۔تاہم وہ صفائی صرف حیلہ جوئی ہے۔
میرے مضمون میں عمران شاہد بھنڈرکے سرقہ کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے مضمون کا پورا حوالہ دیا گیا ہے۔مضمون’’ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی‘‘ از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ ’’دی نیشن‘‘۔لندن۔22؍مارچ 2007ء کا حوالہ۔بھنڈرصاحب کی جانب سے اخبار میں چھپنے والے اس مضمون میں کہیں بھی وہ وضاحتیں نہیں ہیں جو وہ اپنی کتاب کے حوالے سے دے رہے ہیں۔میں نے ان کی کتاب کا حوالہ دے کر سرقہ نشان زد نہیں کیا بلکہ ان کے ۲۰۰۷ء میں مطبوعہ مضمون پر ساری بات کی ہے۔اعتراض اخبار کے مضمون پر کیا گیا ہے، جواب میں تین سال کے بعد چھپنے والی کتاب کی بنیاد پر وضاحت کی جا رہی ہے۔(اضافی نوٹ:)’’یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی تین سال پہلے چوری کرے اور تین سال کے بعد سب سے آنکھ بچا کر چپکے سے مالِ مسروقہ کو واپس اسی جگہ رکھنے کی کوشش کرے۔‘‘
اہلِ ادب نام نہاد نوجوان فلسفی سے پوچھیں کہ اخبار میں ۲۰۰۷ء میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ہوا ہے یا نہیں؟۔۔۔تین سال کے بعد کتاب میں کیا لکھا اور کیا نہیں لکھا،اس سے مجھے غرض نہیں۔دی نیشن لندن کے 22 ؍مارچ 2007 ء کے شمارہ میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ثابت شدہ ہے۔
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد!
جہاں تک نام نہاد نوجوان فلسفی کی دوسری باتوں اور غیر متعلقہ ہفوات کا تعلق ہے،اس کا جواب دینے کے لیے ان کی مادری زبان میں بات کرنا پڑے گی جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔میرے مضمون میں درج ہرالزام، واقعہ اور بیان مبنی بر صداقت ہے۔نام نہادنوجوان فلسفی ایک الزام سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو کئی اور الزامات بھی اُن پر آ پڑیں گے۔میرے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔باقی قانونی چارہ جوئی کی دھمکی عمران بھنڈر کی گیدڑ بھبکی ہے۔اور ان کے مذکورہ مضمون کی زبان خود ان کی علمی و ادبی حیثیت کو اجاگر کر رہی ہے۔
میں اپنے مضمون کا پارٹ ٹو دھیرے دھیرے لکھ رہا ہوں،اس میں عمران شاہد بھنڈر کے مزید سرقے پیش کر وں گا۔انشاء اللہ
!
حیدر قریشی
(تحریر کردہ: ۹؍ اگست ۲۰۱۱ء۔انٹرنیٹ سے ریلیز کی گئی)

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen